"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 627:
توراۃ میں اگرچہ گزشتہ واقعات کا اکثر حصہ مذکور ہے مگر دو باتوں کا تذکرہ نہیں کیا گیا ایک فرعون کے اس دوسرے حکم کا ذکر نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کی اولاد نرینہ کو قتل کیا جائے اور دوسرے اس واقعہ کا کہ فرعون کی قوم میں سے بھی بعض آدمی ایمان لائے تھے اور ان میں سے ایک مرد مومن نے فرعون اور اپنی قوم کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے باز رکھنے کی کوشش کی ‘ ان کو دین کی تبلیغ کی اور سچائی کو قبول کرلینے کی دعوت دی۔ بظاہر اس دوسرے واقعہ کے ترک کردینے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بنی اسرائیل کو فرعون اور فرعونیوں کے مظالم کی وجہ سے انتہائی رنج و غصہ تھا اور اس نے بغض و کینہ کی شکل اختیار کرلی تھی ‘ لہٰذا اس نے اجازت نہ دی کہ اس قوم کے کسی فرد کیلئے بھی یہ ثابت کریں کہ اس میں سعادت اور حمایت حق کی روح موجود تھی۔</big>
 
== فرعون کا دعویٰ ربوبیت والوہیت ==
<big>فرعون اور اس کے سرداروں کا موسیٰ (علیہ السلام) کو شکست دینے میں جب کوئی مکر و فریب اور غیظ و غضب کام نہ آیا اور ارادہ قتل کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی بھی ہمت نہ پڑی تو اب فرعون نے دل کا بخار نکالنے کا یہ طریقہ نکالا کہ ایک جانب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی توہین کے درپے رہتا اور دوسری جانب یہ اعلان کرتا کہ تمہارا رب اعلیٰ اور معبود میرے علاوہ کوئی نہیں ہے موسیٰ (علیہ السلام) بن دیکھے خدا کو رب بتارہا ہے اور میں بایں صد ہزار شوکت و سطوت تمہارے سامنے موجود ہوں چنانچہ مصری قوم پر جو اثر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ” آیات بینات “ دیکھ کر ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ کم ہونے لگا اور دنیوی شوکت و سطوت کی مرعوبیت اور عزت و جاہ کی حرص میں دب کر رہ گیا اور اس طرح وہ سب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کی مخالفت میں پھر فرعون کے ہم نوا ہوگئے۔
{ وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہِ قَالَ یَا قَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ اَفَـلَا تُبْصِرُوْنَ اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ ہٰذَا الَّذِیْ ہُوَ مَہِیْنٌ وَّلَا یَکَادُ یُبِیْنُ فَلَوْلَا اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ اَوْ جَآئَ مَعَہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہٗ فَاَطَاعُوْہُ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فَاسِقِیْنَ } <ref>(الزخرف : ٤٣/٥١ تا ٥٤)</ref>
اور فرعون نے اپنی قوم میں اعلان کیا اے قوم کیا میں مصر کے تاج و تخت کا مالک نہیں ہوں اور میری حکومت کے قدموں کے نیچے یہ نہریں بہہ رہی ہیں کیا تم (میرے اس جاہ و جلال کو) نہیں دیکھتے (اب بتاؤ) کیا میں بلند وبالا ہوں یا یہ جس کو نہ عزت نصیب اور جو بات بھی صاف نہ کرسکتا ہو (اگر یہ اپنے خدا کے یہاں عزت والا ہے) تو کیوں اس پر (آسمان سے) سونے کے کنگن نہیں گرتے یا فرشتے ہی اس کے سامنے پرے باندھ کر کھڑے نہیں ہوتے پس عقل کھودی فرعون نے اپنی قوم کی سو انھوں نے اسی کی اطاعت کی اور تھے وہ نافرمان بندے۔ “
فرعون نے اس جگہ بلند وبالا ہونے کا معیار دو باتوں پر رکھا اور عام طور پر دنیا کو مقصد زندگی سمجھنے والوں کی یہی شان رہی ہے ایک دولت و ثروت دوسرے دنیوی جاہ و حشم اور یہ دونوں فرعون کے پاس موجود تھے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس نہ تھے۔
حضرت شاہ عبدالقادر (نور اللہ مرقدہ) نے ان دونوں باتوں کو موضح القرآن میں ان الفاظ میں ادا کیا ہے :
وہ آپ کنگن پہنتا تھا جواہر کے مکلف اور جس پر مہربان ہوتا سونے کے کنگن پہناتا تھا اور اس کے سامنے فوج کھڑی ہوتی تھی پرا باندھ کر۔ “ <ref>(فوائد سورة زخرف)</ref>
اس لیے اس نے انہی باتوں کا ذکر کیا کہ اگر موسیٰ ((علیہ السلام)) کا خدا مجھ سے الگ کوئی اور ہستی ہے تو وہ موسیٰ کو سونے کے کنگن آسمان سے کیوں نہیں برساتا اور فرشتے اس کے جلو میں پرا باندھ کر کیوں کھڑے نہیں ہوتے اور چونکہ قوم کی نگاہ میں دینی و دنیوی عزت کا معیار یہی تھا اس لیے فرعون کا داؤ ان پر چل گیا اور انھوں نے یک زبان ہو کر فرعون کی اطاعت کا دوبارہ اعلان کردیا یہ بدبخت یہ نہ سمجھے کہ خدائے تعالیٰ کے یہاں عزت کا معیار ” صدق و خلوص “ اور خدا کی ” وفادارانہ عبودیت “ ہے نہ کہ دنیوی دولت و ثروت اور جاہ و حشمت ‘ البتہ جو شخص اصل عزت کو حاصل کرلیتا ہے تو خدائے تعالیٰ یہ چیزیں بھی اس کے قدموں پر نثار کردیتا ہے اور صرف دنیوی عظمت پر اترانے والوں کو ابدی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا چنانچہ آخر میں یہی صورت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم بنی اسرائیل اور فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ پیش آئی :
{ فَلَمَّا اسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنَاہُمْ اَجْمَعِیْنَ فَجَعَلْنَاہُمْ سَلَفًا وَّمَثَـلًا لِّلاٰخِرِیْنَ }
<ref>(الزخرف : ٤٣/٥٥‘ ٥٦)</ref>
” پھر جب ہم کو غصہ آیا تو ہم نے (ان کی بدکرداریوں کا) بدلہ لیا پس ڈبو دیا ان سب کو اور کردیا گئے گزرے اور آنے والی نسلوں کے واسطے ان کو کہاوت بنادیا۔ “
{ ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی فَحَشَرَ فَنَادٰی فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی } <ref>(النازعات : ٧٩/٢٢ تا ٢٦)</ref>
” پس پیٹھ پھیر کر چل دیا پھر (قوم کو) جمع کیا پھر پکارا اور کہنے لگا ” میں ہی تمہارا سب سے بڑا رب ہوں “ پس اس کو پچھلے (آخرت کے) اور پہلے (دنیا کے) عذاب نے آپکڑا بلاشبہ اس واقعہ میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو خوف خدا رکھتا ہو۔</big>