"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 641:
” پس پیٹھ پھیر کر چل دیا پھر (قوم کو) جمع کیا پھر پکارا اور کہنے لگا ” میں ہی تمہارا سب سے بڑا رب ہوں “ پس اس کو پچھلے (آخرت کے) اور پہلے (دنیا کے) عذاب نے آپکڑا بلاشبہ اس واقعہ میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو خوف خدا رکھتا ہو۔</big>
 
== مصریوں پر قہر خدا ==
<big>غرض حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رشد و ہدایت کا فرعون اور اس کے سرداروں پر مطلق اثر نہیں ہوا اور معدودے چند کے سوائے عام مصریوں نے بھی ان ہی کی پیروی کی اور صرف یہی نہیں بلکہ فرعون کے حکم سے بنی اسرائیل کی نرینہ اولاد قتل کی جانے لگی ‘ موسیٰ (علیہ السلام) کی توہین و تذلیل ہونے لگی اور فرعون نے اپنی ربوبیت اور معبودیت کی زور و شور سے تبلیغ شروع کردی تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی آئی کہ فرعون کو مطلع کر دو کہ اگر تمہارا یہی طور طریق رہا تو عنقریب تم پر خدا کا عذاب نازل ہونے والا ہے چنانچہ جب انھوں نے اس پر بھی دھیان نہ دیا تو اب یکے بعد دیگرے عذاب الٰہی آنے لگے یہ دیکھ کر فرعون اور اس کی قوم نے اب یہ وطیرہ اختیار کیا کہ جب عذاب الٰہی کسی ایک شکل میں ظاہر ہوتا تو فرعون اور قوم فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کرنے لگتی کہ اچھا ہم ایمان لے آئیں گے تو اپنے خدا سے دعا کر کہ یہ عذاب جاتا رہے اور جب وہ عذاب جاتا رہتا تو پھر سرکشی و نافرمانی پر اتر آتے پھر عذاب جب دوسری شکل میں آتا تو کہتے کہ اچھا ہم بنی اسرائیل کو آزاد کر کے تیرے ساتھ روانہ کردیں گے ‘ دعا کر کہ یہ عذاب دفع ہوجائے اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان کو پھر مہلت مل جاتی اور عذاب دفع ہوجاتا تو پھر اسی طرح مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے اس طرح خدا کی جانب سے مختلف قسم کے نشانات ظاہر ہوئے اور فرعون اور قوم فرعون کو بار بار مہلت عطا ہوتی رہی لیکن جب انھوں نے اس کو بھی ایک مذاق بنا لیا تب خدا کا آخری عذاب آیا اور فرعون اور اس کے سرکش سردار سب ہی غرق کر دئیے گئے۔</big>