"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 644:
<big>غرض حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رشد و ہدایت کا فرعون اور اس کے سرداروں پر مطلق اثر نہیں ہوا اور معدودے چند کے سوائے عام مصریوں نے بھی ان ہی کی پیروی کی اور صرف یہی نہیں بلکہ فرعون کے حکم سے بنی اسرائیل کی نرینہ اولاد قتل کی جانے لگی ‘ موسیٰ (علیہ السلام) کی توہین و تذلیل ہونے لگی اور فرعون نے اپنی ربوبیت اور معبودیت کی زور و شور سے تبلیغ شروع کردی تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی آئی کہ فرعون کو مطلع کر دو کہ اگر تمہارا یہی طور طریق رہا تو عنقریب تم پر خدا کا عذاب نازل ہونے والا ہے چنانچہ جب انھوں نے اس پر بھی دھیان نہ دیا تو اب یکے بعد دیگرے عذاب الٰہی آنے لگے یہ دیکھ کر فرعون اور اس کی قوم نے اب یہ وطیرہ اختیار کیا کہ جب عذاب الٰہی کسی ایک شکل میں ظاہر ہوتا تو فرعون اور قوم فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کرنے لگتی کہ اچھا ہم ایمان لے آئیں گے تو اپنے خدا سے دعا کر کہ یہ عذاب جاتا رہے اور جب وہ عذاب جاتا رہتا تو پھر سرکشی و نافرمانی پر اتر آتے پھر عذاب جب دوسری شکل میں آتا تو کہتے کہ اچھا ہم بنی اسرائیل کو آزاد کر کے تیرے ساتھ روانہ کردیں گے ‘ دعا کر کہ یہ عذاب دفع ہوجائے اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان کو پھر مہلت مل جاتی اور عذاب دفع ہوجاتا تو پھر اسی طرح مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے اس طرح خدا کی جانب سے مختلف قسم کے نشانات ظاہر ہوئے اور فرعون اور قوم فرعون کو بار بار مہلت عطا ہوتی رہی لیکن جب انھوں نے اس کو بھی ایک مذاق بنا لیا تب خدا کا آخری عذاب آیا اور فرعون اور اس کے سرکش سردار سب ہی غرق کر دئیے گئے۔</big>
 
== آیات اللہ کی تفصیل ==
 
<big>اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بہت سے نشانات (معجزات) عطا فرمائے تھے جن کا ذکر
بقرہ ‘ اعراف ‘ نمل ‘ قصص ‘ اسراء ‘ طہٰ ‘ زخرف ‘ مومن ‘ قمر اور النازعات میں مختلف طریقوں سے کیا گیا ہے چنانچہ اسرا میں ہے :
{ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ ایٰتٍ بَیِّنٰتٍ فَسْئَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اِذْ جَآئَھُمْ فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ھٰٓؤُلَآئِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآئِرَ وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا } <ref>(بنی اسرائیل : ١٧/١٠١‘ ١٠٢)</ref>
” اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو نو نشانات واضح عطا کئے پس تو بنی اسرائیل سے دریافت کر کہ جب یہ نشانات ان کے پاس آئے تو موسیٰ سے فرعون نے یہ کہا بلاشبہ میں تجھ کو جادو کا مارا ہوا سمجھتا ہوں۔ موسیٰ نے کہا تو خوب جانتا ہے کہ ان کو بصیرتیں بنا کر آسمانوں اور زمین کے پروردگار کے سوائے اور کسی نے نہیں اتارا اور (اس لئے) بلاشبہ اے فرعون میں تجھ کو ہلاکت زدہ سمجھتا ہوں۔ “
اور طہٰ ‘ نمل ‘ زخرف اور النازعات میں شمار بتائے بغیر صرف ” آیات “ کہہ کر ذکر کیا گیا ہے ‘ پھر کسی جگہ ” آیات بینات “ اور کہیں ” آیات مفصلات “ اور کسی موقع پر ” الآیۃ الکبریٰ “ اور کہیں صرف ” آیاتنا “ سے تعبیر کیا ہے۔
اور ان تفصیلی اور اجمالی تعبیرات کے علاوہ مسطورہ بالا تمام سورتوں میں علیحدہ علیحدہ نشانات (معجزات) کا بھی ذکر موجود ہے اور اگر ان سب کو یکجا جمع کیا جائے تو حسب ذیل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔
عصا یدبیضا
" سنین (قحط) نقص ثمرات (پھلوں کا نقصان)
طوفان جراد (ٹڈی دل)
& قمل (جوں) ' ضفادع (مینڈک)
( دم (خون)) فلق بحر (قلزم کا پھٹ کردو حصہ ہوجانا)
* من وسلویٰ (حلوا و بٹیر) غمام (بادلوں کا سایہ)
, انفجار عیون (پتھر سے چشموں کا بہہ پڑنا) - نتق جبل (پہاڑ کا اکھڑ کر سروں پر آجانا)
نزول توراۃ
پس مسطورہ بالا مختلف تعبیرات و تفصیلات کی بناء پر مفسرین ١ ؎ کو حیرانی ہے کہ کون سا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے
” تسع آیات “ کی تعیین بھی ہوجائے اور باقی آیات اللہ کی تفصیل بھی صحیح اسلوب پر باقی رہ جائے چنانچہ قاضی بیضاوی اور بعض دوسرے مفسرین نے یہ تشریح فرمائی کہ سورة اسراء میں جن ” تسع آیات “ کا تذکرہ ہے ان سے وہ نشان (معجزات) مراد نہیں ہیں جو فرعون اور قوم کے مقابلہ میں بطور سرزنش عذاب اور عبرت کیلئے بھیجے گئے بلکہ اس سے وہ احکام مراد ہیں جو بنی اسرائیل کو قلزم عبور کرلینے کے بعد دئیے گئے تھے اور اپنی اس تشریح کی تائید میں حضرت صفوان بن عسال کی حدیث پیش کی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مرتبہ دو یہودیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعویٰ نبوت کا امتحان لیا جائے اور مشورہ کے بعد آپ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جو ” تسع آیات “ دئیے تھے ان کی تشریح کیجیے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ احکام یہ ہیں : شرک نہ کرنا ‘ زنا نہ کرنا ‘ ناحق کسی کو قتل نہ کرنا ‘ چوری نہ کرنا ‘ جادو نہ کرنا ‘ حکام رسی کے ذریعے جرم سے پاک انسان کو قتل نہ کرانا ‘ سود نہ کھانا ‘ پاک دامن کو تہمت نہ لگانا ‘ میدان جنگ سے نہ بھاگنا (شعبہ کو شک ہوگیا کہ نواں حکم یہی فرمایا یا کوئی اور) اور اے یہود تمہارے لیے خصوصیت کے ساتھ یہ کہ سبت کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ <ref>(ترمذی کتاب التفسیر جلد ٢ ص ١٥٩)</ref>
مگر ان مفسرین کی یہ تشریح اس لیے صحیح نہیں کہ اسراء میں ” تسع آیات “ کے ذکر کے ساتھ فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ بھی درج ہے فرعون ان آیات کو دیکھ کر کہتا ہے کہ اے موسیٰ یہ سب جادو کا دھندا ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں اے فرعون یہ اللہ تعالیٰ کے نشانات ہیں اور تو انکار کر کے ہلاکت میں پڑ رہا ہے۔ پس اس جگہ ” احکام “ مراد لینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کیونکہ ان کا نزول خود ان مفسرین کے نزدیک بھی غرق فرعون کے بعد ہوا ہے۔ چنانچہ یہی اشکال ترمذی کی حدیث پر بھی وارد ہوتا ہے ‘ نیز یہ بات بھی خدشہ سے خالی نہیں کہ قرآن عزیز کی آیات زیر بحث میں تو نو آیات کا ذکر ہے اور صفوان کی حدیث میں دس ٢ ؎ احکام شمار کرائے ہیں تو یہ گنتی کا تعارض ہے اور پھر احکام عشر کو ” تسع آیات “ کی تشریح بتانا کیسے صحیح ہوسکتا ہے ؟
ان دو اہم خدشات کے علاوہ اس قول اور حدیث صفوان کی تشریح پر جو سخت اشکال لازم آتا ہے وہ یہ ہے کہ سورة نمل میں ” تسع آیات “ کا ذکر کرتے ہوئے یدبیضاء کو نو میں کا ایک بتایا گیا اور یہ بھی صراحت کی گئی ہے کہ یہ آیات (نشانات ) فرعون اور قوم فرعون کی عبرت و بصیرت کیلئے بھیجے گئے تھے :
{ وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَائَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہٖ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فَاسِقِیْنَ } <ref>(سورہ النمل : ٢٧/١٢)</ref>
” اور داخل کر تو اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں وہ نکلے گا روشن بغیر کسی مرض کے (یہ ان) نو آیات میں سے (ہے) جو فرعون اور اس کی قوم کے لیے (بھیجی گئیں) بلاشبہ تھے وہ نافرمان گروہ “
</big>