"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 608:
 
<big>فرعون نے اپنے سرداروں سے اگرچہ اطمینان کا اظہار کردیا تھا لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے روحانی غلبہ کا خیال اس کو اندر ہی اندر گھلائے ڈالتا تھا اور بنی اسرائیل کی اولاد نرینہ کے قتل کے حکم سے بھی اس کو سکون قلب نصیب نہ تھا آخر اس نے یہی فیصلہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کئے بغیر یہ معاملہ ختم نہیں ہوگا لہٰذا سرداروں اور ندیموں سے ایک روز کہنے لگا کہ اگر موسیٰ ((علیہ السلام)) کو ہم نے یوں ہی چھوڑے رکھا تو مجھے یہ خوف ہے کہ یہ تمہارے دین کو بھی آہستہ آہستہ بدل ڈالے گا اور تمام مصر میں فساد مچا دے گا اب یہی بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) کو قتل کردیا جائے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میں ایسے متکبر و مغرور سے کیا ڈرتا ہوں جو خدا کے یوم حساب سے نہیں ڈرتا میرا پشت پناہ تو وہ ہے جو میرا بھی پروردگار ہے اور تم سب کا بھی ‘ میں صرف اسی کی پناہ چاہتا ہوں۔
{ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْہِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ وَقَالَ مُوْسٰی اِنِّی عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ مِّنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ } <ref>(المومن : ٤٠/٢٦‘ ٢٧)</ref>
اور فرعون نے کہا مجھے موسیٰ کو قتل کر ہی لینے دو اس کو چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمہارے دین کو بدل ڈالے یا زمین میں فساد برپا کر دے اور موسیٰ نے کہا میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ چاہتا ہوں ہر اس متکبر سے جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتا۔ “
سطر 652:
اور طہٰ ‘ نمل ‘ زخرف اور النازعات میں شمار بتائے بغیر صرف ” آیات “ کہہ کر ذکر کیا گیا ہے ‘ پھر کسی جگہ ” آیات بینات “ اور کہیں ” آیات مفصلات “ اور کسی موقع پر ” الآیۃ الکبریٰ “ اور کہیں صرف ” آیاتنا “ سے تعبیر کیا ہے۔
اور ان تفصیلی اور اجمالی تعبیرات کے علاوہ مسطورہ بالا تمام سورتوں میں علیحدہ علیحدہ نشانات (معجزات) کا بھی ذکر موجود ہے اور اگر ان سب کو یکجا جمع کیا جائے تو حسب ذیل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔
(1)عصا (2)یدبیضا
"(3) سنین (قحط) (4)نقص ثمرات (پھلوں کا نقصان)
(5) طوفان (6)جراد (ٹڈی دل)
&(7) قمل (جوں) '(8) ضفادع (مینڈک)
(9)( دم (خون)) (10)فلق بحر (قلزم کا پھٹ کردو حصہ ہوجانا)
*(11) من وسلویٰ (حلوا و بٹیر) (12)غمام (بادلوں کا سایہ)
, (13)انفجار عیون (پتھر سے چشموں کا بہہ پڑنا) -(14) نتق جبل (پہاڑ کا اکھڑ کر سروں پر آجانا)
(15)نزول توراۃ
پس مسطورہ بالا مختلف تعبیرات و تفصیلات کی بناء پر مفسرین ١ ؎ کو حیرانی ہے کہ کون سا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے
” تسع آیات “ کی تعیین بھی ہوجائے اور باقی آیات اللہ کی تفصیل بھی صحیح اسلوب پر باقی رہ جائے چنانچہ قاضی بیضاوی اور بعض دوسرے مفسرین نے یہ تشریح فرمائی کہ سورة اسراء میں جن ” تسع آیات “ کا تذکرہ ہے ان سے وہ نشان (معجزات) مراد نہیں ہیں جو فرعون اور قوم کے مقابلہ میں بطور سرزنش عذاب اور عبرت کیلئے بھیجے گئے بلکہ اس سے وہ احکام مراد ہیں جو بنی اسرائیل کو قلزم عبور کرلینے کے بعد دئیے گئے تھے اور اپنی اس تشریح کی تائید میں حضرت صفوان بن عسال کی حدیث پیش کی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مرتبہ دو یہودیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعویٰ نبوت کا امتحان لیا جائے اور مشورہ کے بعد آپ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جو ” تسع آیات “ دئیے تھے ان کی تشریح کیجیے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ احکام یہ ہیں : شرک نہ کرنا ‘ زنا نہ کرنا ‘ ناحق کسی کو قتل نہ کرنا ‘ چوری نہ کرنا ‘ جادو نہ کرنا ‘ حکام رسی کے ذریعے جرم سے پاک انسان کو قتل نہ کرانا ‘ سود نہ کھانا ‘ پاک دامن کو تہمت نہ لگانا ‘ میدان جنگ سے نہ بھاگنا (شعبہ کو شک ہوگیا کہ نواں حکم یہی فرمایا یا کوئی اور) اور اے یہود تمہارے لیے خصوصیت کے ساتھ یہ کہ سبت کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ <ref>(ترمذی کتاب التفسیر جلد ٢ ص ١٥٩)</ref>
سطر 668:
</big>
 
<big>پس قرآن عزیز کی اس صراحت کے بعد نہ حدیث نکارت سے خالی رہتی ہے اور نہ مفسرین کا یہ قول صحیح ہوسکتا ہے اس لیے حافظ حدیث ابن کثیر نے اس حدیث کے متعلق یہ فرمایا ہے :
( (فھذا الحدیث رواہ ھٰکذا الترمذی والنسائی وابن ماجہ وابن جریر فی تفسیرہ من طرق عن شعبۃ بن الحجاج بہٖ وقال الترمذی حسن صحیح وھو حدیث مشکل و عبداللہ بن سلمۃ فی حفظہ شیء وقد تکلموا فیہ ولعلہ اشتبہ علیہ التسع الایات بالعشر الکلمات وصایا فی التورۃ لا تعلق لھا لقیام الحجۃ علیٰ فرعون واللہ اعلم ولھذا قال موسٰی لفرعون لقد علمت ما انزل ھولاء الا رب السموات والارض بصائر ای حجۃ وادلۃ علیٰ صدق ما جئنٰک بہ ” وَاِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یَا فِرْعَوْنَ مَثْبُوْرًا))
” پس اس حدیث کو اس طرح ترمذی ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ اور ابن جریر نے اپنی تفسیر میں مختلف طریقوں سے شعبہ بن الحجاج سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حسن صحیح ہے مگر اس حدیث میں اشکال ہے اور عبداللہ بن سلمہ راوی کے حفظ میں کچھ خرابی ہے اور محدثین نے اس کے بارے میں کلام کیا ہے اور شاید اس کو اشتباہ ہوگیا کہ اس نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودہ دس احکام کو تسع آیات سمجھ کر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا ‘ حالانکہ وہ دس نصیحتیں ہیں جو توراۃ میں بیان کی گئی ہیں ‘ ان کا فرعون پر قیام حجت و دلیل سے مطلق کوئی تعلق نہیں ‘ (واللّٰہ اعلم) اور تسع آیات میں قیام حجت مقصود ہے اسی لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے یہ فرمایا ” تو خوب جانتا ہے کہ ان آیات (معجزات) کو آسمانوں اور زمین کے
پروردگار نے نہیں اتارا مگر عبرت و بصیرت کیلئے یعنی جو حق کا پیغام میں لے کر آیا ہوں اس کی تصدیق کیلئے حجت و دلیل بنا کر بھیجا ہے اور میں بلاشبہ اے فرعون تجھ کو ہلاکت زدہ سمجھتا ہوں۔ “
بہرحال یہ تشریح قطعاً مخدوش و مجروح ہے اور بعض مفسرین نے اس کے خلاف تسع آیات کی تعیین میں ان ہی آیات (معجزات) کو شمار کرایا ہے جو عبرت و بصیرت اور مخالفین کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کیلئے عطا کئے گئے تھے لیکن یہ اقوال بھی مختلف ہیں اور ان میں کافی انتشار موجود ہے اس لیے کہ ان میں قبل عبور اور بعد عبور نشانات کو خلط کردیا گیا ہے البتہ ان سب اقوال میں قابل ترجیح حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول ہے کہ ” تسع آیات “ سے حسب ذیل آیات اللہ مراد ہیں :
(1)عصا (2)یدبیضاء
(3) سنین (4)نقص (5)ثمرات
(5)طوفان (6)جراد
(7) قمل (8) ضفادع
(9) دم
اور حضرت ابن عباس (رض) کے علاوہ مجاہد ‘ عکرمہ ‘ شعبی اور قتادہ بھی اسی کی تائید فرماتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی اس تشریح کا حاصل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جس قدر بھی آیات (معجزات) عطا کئے گئے ایک حصہ بحر قلزم کے عبور سے قبل اور دوسرا حصہ عبور کے بعد سے متعلق ہے اور پہلے حصہ کا تعلق ان تمام واقعات سے ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان پیش آئے اور معرکہ حق و باطل کا باعث بنے اور یہ نو ہیں ان میں سے عصا اور یدبیضا آیات کبریٰ ہیں۔
{ فَاَرَاہُ الْاٰیَۃَ الْکُبْرٰی } <ref>(النازعات : ٧٩/٢٠)</ref>
” پس دکھایا اس (فرعون) کو ایک بڑا نشان (یعنی عصاء کا نشان) “
{ وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ } <ref>(النمل : ٢٧/١٢)</ref>
اور داخل کر تو اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ‘ نکلے گا وہ روشن بغیر کسی مرض کے نو نشانات (معجزات) میں سے۔ “
</big>