"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 686:
</big>
 
<big>اور باقی سات ” آیات عذاب “ ہیں جس نے فرعون اور اہل مصر (قبطیوں) کی زندگی تنگ کردی تھی۔
{ وَ لَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ فَاِذَا جَآئَتْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ وَ اِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَ مَنْ مَّعَہٗ اَ لَآ اِنَّمَا طٰٓئِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ وَ قَالُوْا مَھْمَا تَاْتِنَا بِہٖ مِنْ اٰیَۃٍ لِّتَسْحَرَنَا بِھَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ } <ref>(الاعراف : ٧/١٣٠ تا ١٣٣)</ref>
اور ہم نے پکڑ لیا فرعون والوں کو قحطوں میں اور میووں کے نقصان میں تاکہ وہ نصیحت مانیں۔ پھر جب پہنچی ان کو بھلائی ‘ کہنے لگے یہ ہے ہمارے لائق اور اگر پہنچتی برائی تو نحوست بتلاتے موسیٰ کی اور اس کے ساتھ والوں کی ‘ سن لو ان کی شومی تو اللہ کے پاس ہے پر اکثر لوگ نہیں جانتے اور کہنے لگے جو کچھ تو لائے گا ہمارے پاس نشانی کہ ہم پر اس کی وجہ سے جادو کرے سو ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہ لائیں گے پھر ہم نے بھیجا ان پر طوفان اور ٹڈی اور چچڑی اور مینڈک اور خون ‘ بہت سی نشانیاں جدا جدا دیں۔ “
اور ” آیات بینات “ کے دوسرے حصہ کا تعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل سے متعلق واقعات سے ہے جن میں سے بعض (معجزات) ان کو ہلاکت سے محفوظ رکھنے اور صداقت موسیٰ (علیہ السلام) کو قوت دینے کیلئے ہیں۔ مثلا من و سلوٰی کا نزول ‘ غمام (بادلوں کا سایہ) اور انفجار عیون (پتھر سے بارہ چشموں کا پھوٹ نکلنا) اور بعض بنی اسرائیل کی سرکشی پر تہدید و تخویف کے لیے ہیں مثلا نتق جبل (طور کے ایک حصہ کا اپنی جگہ سے اکھڑ کر بنی اسرائیل کے سر پر آجانا)
{ وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ } <ref>(البقرۃ : ٢/٥٧)</ref>
” اور اے بنی اسرائیل ہم نے تم پر بادل کا سایہ قائم کردیا۔ اور اے بنی اسرائیل ہم نے تم پر من (حلوائے شیریں) اور سلویٰ (بٹیریں) نازل کیا پس تم ان پاک چیزوں کو کھاؤ جو ہم نے تم کو رزق بنا کردی ہیں “
{ وَ اِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا } <ref>(البقرۃ : ٢/٦٠)</ref>
” اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے کہا (اے موسیٰ ) تو پتھر پر اپنی لاٹھی مار ‘ پس بہہ پڑے اس سے بارہ چشمے۔ “
اور دونوں قسم کے نشانات کیلئے حد فاصل وہ عظیم الشان نشان ہے جو فلق بحر (قلزم کے دو ٹکڑے ہو کر راہ نکل آنا) کے عنوان سے معنون ہے اور دراصل ظلم و قہر کی ہلاکت اور مظلومانہ زندگی کی نصرت و حمایت کیلئے ایک فیصلہ کن نشان تھا ‘ یا یوں کہہ دیجئے کہ واقعات قبل از عبور کے انجام اور بعد از عبور روشن آغاز کیلئے حد فاصل کی حیثیت رکھتا تھا چنانچہ اعراف ‘ اسراء ‘ طہ ‘ شعراء ‘ قصص ‘ زخرف ‘ دخان اور الذاریات میں اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور یہ تمام نشانات (معجزات) درحقیقت توطیہ اور تمہید تھے ایک ایسے عظیم الشان اور جلیل المرتبت نشان کے جو اس پوری تاریخ کا حقیقی مقصد اور بنیاد و اساس تھا اور وہ نزول توراۃ کا نشان اعظم ہے۔
{ اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ} <ref>(سورہ مائدہ : ٥/٤٤)</ref>
” اور ہم نے اتاری توراۃ جس میں ہدایت اور نور (کا ذخیرہ) ہے۔ “
الحاصل حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا یہ اثر زیر بحث مسئلہ کے لیے قول فیصل ہے اسی لیے حافظ عماد الدین ابن کثیر نے اس کے متعلق یہ ارشاد فرمایا ہے :
( (وھذا القول ظاھر حلی قوی)) ١ ؎
اور یہ قول صاف ہے واضح ہے عمدہ ہے اور قوی ہے۔ “</big>