"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 735:
” کیا مصر میں قبریں نہ تھیں جو تو ہم کو مرنے کے لیے بیابان میں لے آیا ہے ؟ تو نے ہم سے یہ کیا کیا کہ ہم کو مصر سے نکال لایا ؟ کیا ہم تجھ سے مصر میں یہ بات نہ کہتے تھے کہ ہم کو رہنے دے کہ ہم مصریوں کی خدمت کریں ؟ کیونکہ ہمارے لیے مصریوں کی خدمت کرنا بیابان میں مرنے سے بہتر ہوتا۔ “ <ref>(خروج باب ١٤ آیات ١١‘ ١٢)</ref></big>
 
== غرق فرعون ==
<big>حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تسلی دی اور فرمایا خوف نہ کرو خدا کا وعدہ سچا ہے وہ تم کو نجات دے گا اور تم ہی کامیاب ہو گے ‘ اور پھر درگاہ الٰہی میں دست بدعا ہوئے وحی الٰہی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی کو پانی پر مارو تاکہ پانی پھٹ کر بیچ میں راستہ نکل آئے ‘ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا جب انھوں نے قلزم پر اپنا عصا مارا تو پانی پھٹ کر دونوں جانب دو پہاڑوں کی طرح کھڑا ہوگیا اور بیچ میں راستہ نکل آیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم سے تمام بنی اسرائیل اس میں اتر گئے۔ اور خشک زمین کی طرح اس سے پار ہوگئے ‘ فرعون نے یہ دیکھا تو اپنی قوم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا یہ میری کرشمہ سازی ہے کہ بنی اسرائیل کو تم جا پکڑو لہٰذا بڑھے چلو چنانچہ فرعون اور اس کا تمام لشکر بنی اسرائیل کے پیچھے اسی راستے پر اتر لیے لیکن اللہ تعالیٰ کی کرشمہ سازی دیکھئے کہ جب بنی اسرائیل کا ہر فرد دوسرے کنارہ پر سلامتی کے ساتھ پہنچ گیا تو پانی بحکم الٰہی پھر اپنی اصلی حالت پر آگیا اور فرعون اور اس کا تمام لشکر جو ابھی درمیان ہی میں تھا غرق ہوگیا۔
جب فرعون غرق ہونے لگا اور ملائکہ عذاب سامنے نظر آنے لگے تو پکار کر کہنے لگا ” میں اسی ایک وحدہ لا شریک لہ ہستی پر ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں فرمان برداروں میں سے ہوں “ مگر یہ ایمان چونکہ حقیقی ایمان نہ تھا بلکہ گزشتہ فریب کاریوں کی طرح نجات حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ایک مضطربانہ بات تھی اس لیے خدا کی طرف سے یہ جواب ملا :
{ آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ } <ref>(یونس : ١٠/٩١)</ref>
اب یہ کہہ رہا ہے حالانکہ اس سے پہلے جو اقرار کا وقت تھا اس میں انکار اور خلاف ہی کرتا رہا اور درحقیقت تو مفسدوں میں سے تھا۔ “
یعنی خدا کو خوب معلوم ہے کہ تو ” مسلمین “ میں سے نہیں بلکہ ” مفسدین “ میں سے ہے۔
درحقیقت فرعون کی یہ پکار ایسی پکار تھی جو ایمان لانے اور یقین حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ عذاب الٰہی کا مشاہدہ کرنے کے بعد اضطراری اور بےاختیاری کی حالت میں نکلتی ہے اور مشاہدہ عذاب کے وقت اس کی یہ صدائے ” ایمان و یقین “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا کا نتیجہ تھی جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں :
{ فَـلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا } <ref>(یونس : ١٠/٨٨‘ ٨٩)</ref>
” پس یہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں ‘ جب تک اپنی ہلاکت اور عذاب کو آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ‘ اللہ تعالیٰ نے کہا بلاشبہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی۔ “
اس موقع پر فرعون کی پکار پر درگاہ الٰہی کی جانب سے یہ بھی جواب دیا گیا :
{ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ ایَۃً } <ref>(سورہ یونس : ١٠/٩٢)</ref>
” آج کے دن ہم تیرے جسم کو ان لوگوں کیلئے جو تیرے پیچھے آنے والے ہیں نجات دیں گے کہ وہ (عبرت کا) نشان بنے۔ “
پس اگر گزشتہ ” مصری مقالہ “ کا مضمون صحیح ہے کہ منفتاح (رعمسیس ثانی) ١ ؎ ہی فرعون موسیٰ ((علیہ السلام)) تھا تب تو بےشبہ اس کی نعش آج تک محفوظ ہے اور سمندر میں تھوڑی دیر غرق رہنے کی وجہ سے اس کی ناک کو مچھلی نے کھالیا ہے اور آج وہ مصریات (اجپٹالوجی) کے مصری عجائب خانہ میں تماشاگاہ خاص و عام ہے۔
اور بالفرض یہ وہ فرعون نہیں ہے تب بھی آیات کا مطلب اپنی جگہ صحیح ہے ‘ اس لیے کہ توراۃ میں تصریح ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنی آنکھوں سے غرق شدہ مصریوں کی نعشوں کو کنارے پر پڑے ہوئے دیکھا تھا۔
اور اسرائیلیوں نے مصریوں کو سمندر کے کنارے مرے ہوئے پڑے دیکھا “ <ref>(خروج باب ١٤‘ آیت ٣٠)</ref></big>