"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 781:
جب بنی اسرائیل نے جنگل کی راہ لی تو اب فرعون اور اس کے سرداروں کو اپنے فیصلہ پر سخت افسوس ہوا ‘ اور انھوں نے آپس میں کہا کہ ہم نے مفت میں ایسے اچھے چاکر اور غلام ہاتھ سے کھو دئیے اور فرعون نے حکم دیا کہ فوراً سرداروں ‘ مصری نوجوانوں اور فوج کو تیاری کا حکم دو اور وہ کروفر کے ساتھ رتھوں میں سوار ہو کر نکل کھڑے ہوئے اور بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔</big>
 
<big>بنی اسرائیل رعمسیس سے سکات اور وہاں سے ایتام اور پھر مڑ کر مجدال اور بحر احمر کے درمیان فی ہخیروت کے پاس بعل صفون کے سامنے خیمہ زن ہوچکے تھے بنی اسرائیل کے اس پورے سفر میں خدا ان کے ساتھ رہا اور وہ نورانی ستون کی تجلی کے ساتھ رات میں بھی ان کی رہنمائی کرتا اور دن میں بھی آگے آگے چلتا غرض صبح کی پوپھٹ رہی تھی کہ فرعون نے سمندر کے کنارے بنی اسرائیل کو آلیا۔ انھوں نے پیچھے پھر کر دیکھا اور فرعون کو لاؤ لشکر کے ساتھ اپنے قریب پایا تو بددل اور خائف ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جھگڑا کرنے لگے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو بہت کچھ تسلی و تشفی دی اور بتایا کہ تمہارے دشمن ہلاک ہوں گے اور تم سلامتی و عافیت کے ساتھ نجات پاؤ گے ‘ اور پھر دربار خداوندی میں مناجات کرنے لگے :
” اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ تو کیوں مجھ سے فریاد کر رہا ہے ‘ بنی اسرائیل سے کہو کہ وہ آگے بڑھیں اور تو اپنی لاٹھی اٹھاکر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل جائیں گے۔۔ پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تند پوربی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنادیا اور پانی دو حصے ہوگیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔ اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہ وبالا کردیا اور پانی پلٹ کر آیا اور اس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کردیا اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوڑا ‘ پھر بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور پانی ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ دیواروں کی طرح رہا۔۔ اور اسرائیلیوں نے وہ بڑی قدرت جو خداوند نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور وہ لوگ خداوند سے ڈرے اور خداوند پر اور اس کے بندے موسیٰ پر ایمان لائے۔ “ <ref>(خروج باب ١٤ آیات ١٥۔ ٣١)</ref>
توراۃ کی ان تفصیلات میں اگرچہ بہت زیادہ رطب و یابس اور دور از کار باتیں بھی ضمناً آگئی ہیں مگر وہ اور قرآن عزیز دونوں اس بارہ میں ہم آہنگ ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قہرمانیت کے مظالم سے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو ایک عظیم الشان نشان (معجزہ) کے ذریعہ نجات دی۔ قرآن عزیز کہتا ہے کہ یہ معجزہ اس طرح ظاہر ہوا کہ خدا کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) نے بحر قلزم پر لاٹھی ماری اور سمندر کا پانی بیچ میں خشکی دے کر دونوں جانب پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا :
{ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ } <ref>(الشعراء : ٢٦/٦٣)</ref>
” پس (سمندر) پھٹ گیا پھر ہر ایک جانب ایک بڑے پہاڑ کی مانند ہوگئی۔ “
{ وَ اِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَ اَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ } <ref>(سورہ البقرۃ : ٢/٥٠)</ref>
” اور جب ہم نے ٹکڑے کردیا تمہارے لیے سمندر ‘ پس نجات دی ہم نے تم کو اور غرق کردیا فرعون کے لوگوں کو اور تم دیکھ رہے تھے۔ “
اور توراۃ بھی اسی کی تائید کرتی ہے چنانچہ اس میں مذکور ہے :
اور تو اپنی لاٹھی اٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصے کر۔۔ اور ان کے داہنے اور بائیں پانی دیوار کی طرح تھا۔ “ <ref>(کتاب خروج ‘ باب ١٤‘ آیات ١٦۔ ٢٢)</ref>
البتہ توراۃ میں یہ اضافہ اور ہے کہ ” رات بھر تند پوربی ہوا چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنادیا “ سو اول تو توراۃ کی تحریف اور مختلف سنین کے مختلف تراجم کے پیش نظر تاریخی اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے قرآن عزیز کے بیان ہی کو قابل اعتماد سمجھا جائے گا کیونکہ وہ باتفاق دوست و دشمن ہر قسم کی تحریف و تبدیل اور اضافہ و ترمیم سے محفوظ ہے۔
{ لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } <ref>(سورہ فصلت : ٤١/٤٢)</ref>
اس پر باطل کا کسی جانب سے گزر نہیں نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے ‘ وہ اتارا ہوا ہے ایسی ہستی کی جانب سے جو حکمت والا خوبیوں والا ہے۔ “</big>