"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 793:
{ لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } <ref>(سورہ فصلت : ٤١/٤٢)</ref>
اس پر باطل کا کسی جانب سے گزر نہیں نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے ‘ وہ اتارا ہوا ہے ایسی ہستی کی جانب سے جو حکمت والا خوبیوں والا ہے۔ “</big>
 
<big>علاوہ ازیں اس اضافہ کی تطبیق کی بہترین صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ بڑھا کر عصا چلانے سے اول سمندر کے دو حصے ہوگئے اور دونوں جانب پانی کھڑا ہوگیا اور پھر لاکھوں انسانوں نے جب اس کے درمیان سے گزرنا شروع کیا تو زمین کی نمی اور تری کو خشک کرنے کے لیے برابر پوربی تند ہوا چلتی رہی تاکہ بچہ سے بوڑھے تک اور انسان سے حیوان تک کسی کو بھی گزرنے میں زحمت و تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں بعض ایسے افراد بھی ہیں جو ” علم “ کے نام سے مذہب کے ہر مسئلہ کو مادیات ہی تک محدود دیکھنا چاہتے ہیں اور اس لیے خدا کے دئیے ہوئے ان نشانات (معجزات) کا بھی انکار کرتے ہیں جو انبیاء و رسل (علیہم السلام) کی صداقت کی تائید اور دلیل میں ظہور پذیر ہوتے ہیں ان کے انکار کے وہی معنی ہیں جو گزشتہ صفحات پر معجزہ کی بحث میں زیر بحث آ چکے ہیں یعنی وہ خدا کے کسی فعل کو بھی کسی حالت میں اس محسوس اور مادی دنیا کے اسباب و علل سے مستثنیٰ مان لینے کو آمادہ نہیں ہیں کیونکہ ان کے الحادو زندقہ کی بنیاد دراصل مغربی الحادو زندقہ پر قائم ہے اور ان کا دل و دماغ اس ہی سے مرعوب اور متاثر ہیں جس کا لازمی نتیجہ میٹریلزم پر اعتقاد و اعتماد کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔
پس من جملہ دوسرے مقامات کے انھوں نے اس مقام پر بھی یہ کوشش کی ہے کہ کسی طرح ” غرق فرعون “ کا یہ واقعہ روحانی معجزہ سے نکل کر مادی اسباب و علل کے تحت آجائے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی دنیوی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہستی سید احمد خان (سرسید) (مرحوم) بھی علوم عربیہ اور علوم دینیہ سے ناواقفیت کے باوجود مسطورہ بالا عقیدہ کی ترویج میں پیش پیش ہیں غالباً اس طرح وہ یورپ کی موجودہ زندگی کے ساتھ اسلام کو مطابق کرنا چاہتے تھے مگر مادیت کا یہ چولا چونکہ اس کے قد پر راست نہ آیا اس لیے انھوں نے چولے کی ترمیم کے بجائے اسلام کے نقشہ اور قدوقامت میں ترمیم شروع کردی مگر اس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔
بلاشبہ اسلام ایک ایسا روحانی مذہب ہے جو روحانیت کی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیوی زندگی میں بھی انسان کے عروج اور فلاح و بہبود کا کفیل ہے اور اس لیے ہر زمانے کے علوم و فنون کی ترقی اس کی آغوش میں پلتی اور اس میں جذب ہوتی رہی ہے اور علم و حکمت ہمیشہ اس کے سایہ عاطفت میں نشوونما پاتے رہے لیکن مادی علوم کی حدود مادیات و مشاہدات اور محسوسات سے آگے کسی حال میں متجاوز نہیں ہوسکتیں اور آج کی سائنس اور کل کا فلسفہ دونوں اس کا اقرار کرتے ہیں کہ ہماری حدود محسوسات سے پرے نہیں ہیں یعنی محسوسات و مادیات کی دیوار کے پیچھے کیا ہے ؟ وہ اس سے لاعلمی تو ظاہر کرتے ہیں مگر ان کا انکار نہیں کرتے۔
اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ گزشتہ اور موجودہ زمانہ میں جب کبھی علوم ” نظر یوں اور ” تھیوریز “ سے آگے بڑھ کر محسوس اور مشاہدہ کی حد تک پہنچے ہیں تو ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ وہ اسلام کے اصول سے ٹکراتا ہو یا اسلام میں اس کا انکار پایا جاتا ہو تب ایسی صورت میں جب تک علمی نظر یوں اور تھیوریوں میں آئے دن تبدیلیاں ہوتی رہتی اور علمی تحقیقات ایک جگہ چھوڑتی اور دوسری جگہ بناتی رہتی ہیں تو اسلام کو ان کے مطابق کرنے کی سعی عبث ہے کیونکہ مشاہدہ کی حد پر پہنچنے کے بعد بلاشبہ ان کا فیصلہ قرآن کے فیصلے سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔
البتہ اسلام یا مذہب حق چند ایسے امور کا بھی اقرار کرتا ہے جو ان مادیات کی دنیا سے پرے کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً آخرت ‘ حشر و نشر ‘ جنت ‘ جہنم ‘ ملائکہ ‘ وحی ‘ نبوت اور معجزہ ‘ مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان میں سے کوئی امر بھی خلاف عقل یعنی عقل کی نگاہ میں ناممکن اور محال نہیں ہے تاہم عقل کے لیے اس کی کنہ و حقیقت کا ادراک صرف اسی قدر ہوسکتا ہے جس قدر کہ مذہب نے اپنے علم یقین (وحی الٰہی) کے ذریعہ اس کو بتادیا ہے اور ان باتوں کے سمجھنے کیلئے وحی کے سوا عقل کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
بہرحال سید احمد خاں صاحب نے تفسیر احمدی میں اس مقام کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ غرق فرعون اور نجات بنی اسرائیل کا یہ واقعہ معجزہ نہ تھا بلکہ عام دنیوی سلسلہ اسباب و علل کے ماتحت بحر کے ” مدو جزر “ (جوار بھاٹا) سے تعلق رکھتا ہے یعنی صورت حال یہ پیش آئی کہ جس وقت بنی اسرائیل نے قلزم کو عبور کیا تھا اس وقت اس کا پانی سمٹا ہوا تھا اور پیچھے کو ہٹ کر اس نے ” جزر “ اختیار کر رکھا تھا فرعون نے جب بنی اسرائیل کو اس آسانی سے پار ہوتے دیکھا تو اس نے لشکر کو داخل ہونے کا حکم دے دیا مگر بنی اسرائیل پار ہوچکے تھے اور فرعونی لشکر ابھی سمندر کی خشکی پر چل ہی رہا تھا کہ اس کے ” مد “ اور آگے بڑھنے کا وقت آپہنچا اور فرعون اور اس کے لشکر کو اتنی بھی مہلت نہ ملی کہ وہ آگے بڑھ سکے یا پیچھے ہٹ سکے اور سب غرق ہوگئے۔
سید صاحب نے اپنے اس مزعومہ خیال کے مطابق بنی اسرائیل کے عبور کے متعلق ایک نقشہ بھی دیا ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بنی اسرائیل نے قلزم کے شمالی دہانہ پر جا کر اس کو عبور کیا ہے۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قرآن عزیز کی تصریحات اس کا قطعی انکار کرتی ہیں اور سید صاحب کی بات کسی طرح بنائے نہیں بنتی۔ اس بات کا فیصلہ تو قطعی ناممکن ہے کہ خاص وہ مقام متعین کیا جاسکے کہ جس سے بنی اسرائیل گزرے اور دریا کو عبور کر گئے کیونکہ اس سلسلے میں گزشتہ تاریخ کا پرانا ذخیرہ توراۃ ہے مگر اس کے بیان کردہ مقامات موجودہ نسل کیلئے نامعلوم اسماء کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔
البتہ قرآن اور توراۃ کی مشترک تصریحات و نصوص سے یہ قطعی متعین کیا جاسکتا ہے کہ بنی اسرائیل نے بحر قلزم کے کسی کنارے اور دہانہ سے عبور کیا یا درمیانی کسی حصہ سے ؟ اس کیلئے ایک مرتبہ نقشہ میں اس حصہ پر نظر ڈالئے جہاں بحر احمر (قلزم یا ریڈ سی) واقع ہے۔ دراصل یہ بحر عرب کی ایک شاخ ہے جس کے مشرق میں سرزمین عرب واقع ہے اور مغرب میں مصر ‘ شمال میں اس کی دو شاخیں ہوگئی ہیں ایک شاخ (خلیج عقبہ) جزیرہ نمائے سینا کے مشرق میں اور دوسری (خلیج سویز) اس کے مغرب میں واقع ہے یہ دوسری شاخ پہلی سے بڑی ہے اور شمال میں بڑی دور تک چلی گئی ہے بنی اسرائیل اسی کے درمیان سے گزرے ہیں اس شاخ کے شمالی دہانہ کے سامنے ایک اور سمندر واقع ہے جس کا نام بحیرہ روم ہے ‘ اور بحر روم اور بحر احمر کے اس شمالی دہانہ کے درمیان تھوڑا سا خشکی کا حصہ ہے یہی وہ راستہ تھا جہاں سے مصر سے فلسطین اور کنعان جانے والے کو بحر احمر عبور کرنا نہیں پڑتا تھا اور اس زمانہ میں یہ راہ قریب کی راہ سمجھی جاتی تھی اور بنی اسرائیل نے بحکم الٰہی یہ راہ اختیار نہیں کی تھی اب اسی خشک زمین کو کھود کر بحر احمر (ریڈ سی) کو بحر روم سے ملا دیا گیا ہے اور اس ٹکڑے کا نام نہر سویز ہے اور ” ریڈ سی “ کے شمالی دہانہ پر سوئز کے نام سے ایک شہر آباد ہے جو مصر کی بندرگاہ شمار ہوتا ہے۔
اب اس کے بعد قرآن عزیز کی سورة بقرہ اور سورة شعراء کی ان آیات پر پھر ایک مرتبہ غور کرنا چاہیے جو اس سلسلہ کی تصریحات پیش کرتی ہیں ان آیات میں دو باتوں کا صاف صاف تذکرہ موجود ہے ایک فلق یا فرق بحر یعنی سمندر کا پھٹنا یا اس کو پھاڑ دینا ‘ اور دوسرے دونوں جانب پانی کا پہاڑ کی طرح کھڑا ہوجانا اور درمیان میں راستہ پیدا ہوجانا۔
{ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ } <ref>(سورہ الشعراء : ٢٦/٦٣)</ref>
عربی لغت میں فرق کے معنی دو ٹکڑے کر کے جدا کردینے کے آتے ہیں خصوصاً ” بحر “ کی نسبت کے ساتھ ‘ چنانچہ کتب لغت میں ہے ” فرق البحرای فلقہ “ سر کی مانگ کو بھی ” فرق “ اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ سر کے بالوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے بیچ میں نکالی جاتی ہے اور ” فلق “ کے متعلق اس طرح مذکور ہے ” فلق الشی ‘ شقہ والفلق ‘ انشق “ یعنی اس نے فلاں شے کو ٹکڑے کردیا اور وہ ٹکڑے ہوگئی اسی لیے ” فالق “ اس دراڑ کو کہتے ہیں جو پتھر کے درمیان ہوجاتی ہے اسی طرح ” طود “ کے معنی بڑے پہاڑ کے ہیں ” الطود ‘ الجبل العظیم “ پس ان لغوی تصریحات کے بعد ان ہر دو آیات کا صاف اور سادہ مطلب یہ ہوا کہ سمندر کا پانی یقیناً دو ٹکڑے ہوگیا اور وہ دونوں جانب دو کھڑے ہوئے پہاڑ کی طرح بن گیا اور درمیان میں راستہ پیدا ہوگیا اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ بنی اسرائیل نے سمندر کے ایسے حصہ سے عبور کیا ہو جو دہانہ اور کنارے کے سامنے کا حصہ نہ ہو بلکہ پانی کا ایسا حصہ ہو جو درمیان سے پھٹ کر دو حصے بن سکتا ہو دوسرے الفاظ میں یوں کہہ دیجئے کہ قرآن عزیز صاف صاف اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ بنی اسرائیل خشکی کی راہ سے قلزم کے دہانہ یا کنارے سے نہیں گزرے تھے بلکہ سمندر کے کسی درمیانی حصہ کو عبور کر کے میدان سینا میں پہنچے تھے اور یہ ظاہر ہے کہ ” مدوجزر “ (جوار بھاٹا) طولانی حصہ میں دہانے کی جانب ہوا کرتا ہے عرض میں اس طرح کبھی بھی نہیں ہوتا کہ پانی دونوں جانب سمٹ جائے اور بیچ میں خشکی کی راہ پیدا ہوجائے لہٰذا خدائے تعالیٰ کے اس عظیم الشان ” نشان “ (معجزہ) کا انکار کرتے ہوئے اس کو روزمرہ کے مادی اسباب کے نیچے لانے کی سعی کرنا قرآنی تصریحات کے بالکل خلاف اور اس کی تحریف کے مرادف ہے۔
نیز توراۃ نے بنی اسرائیل کے اس عبور کے واقعہ میں ” بحرِ احمر “ کے جن مشرقی اور مغربی کنارہ کے مقامات کا ذکر کیا ہے اور اس عبور کے متعلق جو تصریحات بیان کی ہیں ان سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عبور دہانہ پر سے نہیں تھا بلکہ شمال مغرب کے درمیانی حصہ سے ہوا تھا جیسا کہ نقشہ سے واضح ہوتا ہے۔
بعض مغرب زدہ ” ملحدوں “ نے اس مقام پر جب کسی طرح انکار معجزہ کی بات بنتی نہ دیکھی تو توراۃ کے اس فقرے کا سہارا لیا :
اور خداوند نے رات بھر تندپوربی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنادیا ‘ اور پانی دو حصے ہوگیا اور بنی اسرائیل سمند رکے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔ “ <ref>(خروج ‘ باب ١٤‘ آیات ٢١۔ ٢٢)</ref>
وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ خشک زمین سمندر کے بیچ میں نکل آئی تھی تو بھی یہ معجزہ نہ تھا بلکہ رات بھر خشک ہوا کے چلنے سے دونوں جانب پانی بستہ برف کی طرح ہوگیا تھا اور بیچ میں خشک راستہ بن گیا تھا مگر جب فرعون کی باری آئی تو آفتاب کی تمازت نے بستہ برف کو پگھلا دیا اور پانی اصل حالت پر آگیا اور مصری غرق ہوگئے۔
تو اس کے متعلق نجار مصری نے خوب کہا ہے کہ اگر بالفرض ان کی اس باطل تاویل کو تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی یہ ” معجزہ “ ہوا ‘ اس لیے کہ سمندروں کے وجود سے لے کر آج تک کسی جگہ یہ ثابت نہیں ہے کہ اس طرح ہوا چل کر ان کے درمیان میں خشک راہ بنا دیتی ہو ‘ علم تاریخ اور طبیعیات دونوں اس قسم کے واقعہ سے یکسر خالی ہیں۔
پس عام مادی علل و اسباب سے جدا اگر ہوا کا یہ عمل صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون اور اس کے لشکر کے غرق ہی کے لیے مخصوص تھا اور مخصوص رہا تو پھر یہ ” معجزہ “ نہیں تو اور کیا ہے ؟</big>