"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 837:
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اب اپنی قوم کو ساتھ لے کر بیابان شور سے ہوتے ہوئے سین یا سینا کی راہ لی ‘ سینا کے بت کدوں میں پرستاران صنم بتوں کی پوجا میں مشغول تھے بنی اسرائیل نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے ” موسیٰ ہم کو بھی ایسے ہی معبود بنا دے تاکہ ہم بھی اسی طرح ان کی پرستش کریں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کی زبانی یہ مشرکانہ مطالبہ سنا تو بہت زیادہ ناراض ہوئے اور بنی اسرائیل کو ڈانٹا ‘ عار دلائی اور ملامت کی کہ بدبختو خدائے واحد کی پرستش چھوڑ کر بتوں کی پوجا پر مائل ہو اور خدا کی ان تمام نعمتوں کو فراموش کر بیٹھے جن کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرچکے ہو۔</big>
 
== قومی پستی کا مظاہرہ ==
<big>دنیا کی تاریخ میں ہمارے سامنے ایک قوم کا نقشہ حیات اس طرح نظر آتا ہے کہ وہ تقریباً ساڑھے چار سو برس سے مصر کے قاہر و جابر بادشاہوں اور مصری قوم کے ہاتھوں میں غلام اور مظلوم چلی آتی ہے اور غالب قوم کے سخت سے سخت مصائب و مظالم کا شکار بن رہی ہے کہ اچانک اسی مردہ قوم میں سے بجلی کی کڑک اور آفتاب کی چمک کی طرح ایک برگزیدہ ہستی سامنے آتی ہے اور اس کی صدائے حق اور اعلان ہدایت سے تمام قلمرو باطل لرزہ براندام ہوجاتی اور ایوان ظلم و کفر میں بھونچال آجاتا ہے وہ دنیا کی ایک زبردست متمدن طاقت کے مقابلہ میں یہ اعلان کرتی ہے کہ میں خدائے واحد کا رسول اور ایلچی ہوں اور تجھ کو ہدایت کی پیروی اور مظلوم قوم کی آزادی کا پیغام سنانے آیا ہوں ‘ فرعونی طاقت اپنے تمام مادی اسباب کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتی ہے مگر ہر مرتبہ شکست کا منہ دیکھتی ہے اور آخری بازی میں حق کی کامیابی اور باطل کی ہلاکت کا ایسا حیرت زا نقشہ سامنے آتا ہے کہ مادی طاقت قلزم میں غرق ہوجاتی اور غلام و مظلوم قوم اور دنیوی اسباب و وسائل سے محروم قوم آزادی کے گیت گاتی نظر آتی ہے۔
یہ ہے وہ عجیب و غریب فطرت اور حیران کن طبیعت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی قوم ” بنی اسرائیل “ جو ان تمام معرکہ ہائے حق و باطل کو آنکھوں سے دیکھنے اور حق کی کامیابی کے ساتھ اپنی نجات پا جانے کے شکریہ میں آج موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلا مطالبہ یہ کرتی ہے کہ ہم کو بھی ایسے ہی معبود (بت) بنا دے جیسا کہ یہ پجاری بت خانہ میں بیٹھے پوج رہے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ اگرچہ بنی اسرائیل نبیوں کی اولاد تھے اور ابھی تک ان میں وہ اثرات ایک حد تک باقی بھی تھے جو ان کو باپ دادا سے ورثہ میں ملے تھے تاہم صدیوں سے مصری بت پرستوں میں بودوماند کرنے اور ان کے حاکمانہ اقتدار میں غلام رہنے کی وجہ سے ان میں صنم پرستی کا جذبہ کافی سرایت کرچکا تھا اور وہی جذبہ تھا جو آج پجاریوں کو دیکھ کر ان میں ابھر آیا اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے ایسا ناپاک مطالبہ کر بیٹھے۔
{ وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَّعْکُفُوْنَ عَلٰٓی اَصْنَامٍ لَّھُمْ قَالُوْا یٰمُوْسَی اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ اِنَّ ھٰٓؤُلَآئِ مُتَبَّرٌ مَّا ھُمْ فِیْہِ وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ قَالَ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْغِیْکُمْ اِلٰھًا وَّ ھُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ } <ref>(الاعراف : ٧/١٣٨ تا ١٤٠)</ref>
” اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کردیا پھر ان کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو اپنے بتوں کے سمادھ لگائے بیٹھی تھی تو کہنے لگے موسیٰ جیسے ان کے معبود بت ہیں ایسے ہی ہمارے لیے بھی بنا دے موسیٰ نے کہا افسوس تم پر بلاشبہ تم جاہل قوم ہو ‘ لاریب ان لوگوں کا طریقہ تو ہلاکت کا طریقہ ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں باطل ہے (اور یہ بھی) کہا کہ باوجود اس کے کہ تم کو خدا نے تمام کائنات پر فضیلت دی ہے پھر بھی میں تمہارے لیے خدائے واحد کے سوا اور معبود تلاش کروں ؟ “</big>