"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 844:
” اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کردیا پھر ان کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو اپنے بتوں کے سمادھ لگائے بیٹھی تھی تو کہنے لگے موسیٰ جیسے ان کے معبود بت ہیں ایسے ہی ہمارے لیے بھی بنا دے موسیٰ نے کہا افسوس تم پر بلاشبہ تم جاہل قوم ہو ‘ لاریب ان لوگوں کا طریقہ تو ہلاکت کا طریقہ ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں باطل ہے (اور یہ بھی) کہا کہ باوجود اس کے کہ تم کو خدا نے تمام کائنات پر فضیلت دی ہے پھر بھی میں تمہارے لیے خدائے واحد کے سوا اور معبود تلاش کروں ؟ “</big>
 
== بنی اسرائیل کے دیگر مطالبات اور آیات بینات کا ظہور ==
<big>بنی اسرائیل نے بحر قلزم کو پار کر کے جس سرزمین پر قدم رکھا یہ عرب کی سرزمین تھی جو قلزم کے مشرق میں واقع ہے یہ لق و دق بےآب وگیاہ میدان سے شروع ہوتی ہے جو توراۃ کی زبان میں بیابان شور ‘ سین ‘ وادی سینا (تیہ) کے نام سے مشہور ہے اور طور تک اس کا دامن وسیع ہے ‘ یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دور دور تک سبزہ اور پانی کا پتہ نہیں ‘ اس لیے بنی اسرائیل گھبرا اٹھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کرنے لگے کہ ہم پانی کہاں سے پئیں ہم تو پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرجائیں گے ‘ یہاں تو پینے کے لیے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے درگاہ الٰہی میں التجا کی اور وحی الٰہی نے ان کو حکم دیا کہ اپنا عصا زمین پر مارو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تعمیل ارشاد کی تو فوراً بارہ سوت ابل پڑے اور بنی اسرائیل کے بارہ اسباط (قبائل) کیلئے جدا جدا چشمے جاری ہوگئے بنی اسرائیل کو جب اس طرف سے اطمینان ہوگیا تو اب کہنے لگے کہ پانی کا تو انتظام ہوگیا لیکن زندگی کیلئے صرف یہی تو کافی نہیں ہے ‘ ہم کو بھوک لگی ہے اب کھائیں کہاں سے ؟ یہاں تو کوئی صورت نظر نہیں آتی ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر رب العٰلمین کی بارگاہ میں دعا کی ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ موسیٰ تمہاری دعا قبول ہوئی ‘ پریشان نہ ہو ہم غیب سے سب انتظام کئے دیتے ہیں اور پھر ایسا ہوا کہ جب رات بیت گئی اور صبح ہوئی تو بنی اسرائیل نے دیکھا کہ زمین اور درختوں پر جگہ جگہ سپیداولے کے دانے کی طرح شبنم کی صورت میں آسمان سے کوئی چیز برس کر گری ہوئی ہے کھایا تو نہایت شیریں حلوے کی مانند تھی یہ ” من “ تھا اور دن میں تیز ہوا چلی اور تھوڑی دیر میں بٹیروں کے غول کے غول آ کر زمین پر اترے اور پھیل گئے بنی اسرائیل نے بآسانی ان کو ہاتھوں سے پکڑ لیا اور بھون کر کھانے لگے ‘ یہ ” سلویٰ “ تھا اور اس طرح روزانہ بغیر زحمت و تکلیف کے ان کو یہ دونوں نعمتیں مہیا ہوجاتیں لیکن خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت بنی اسرائیل کو یہ تنبیہ کردی تھی کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق من وسلویٰ کو کام میں لائیں ‘ اور دوسرے دن کیلئے ذخیرہ نہ کریں ہم ان کو روزانہ یہ نعمت عطا کرتے رہیں گے۔
<ref>(تفسیر ابن کثیر جلد ١ ص ٩٥‘ ٩٦)</ref>
کھانے اور پینے کی ضروریات کی فراہمی سے جب اطمینان ہوگیا تو اب بنی اسرائیل نے تیسر ا مطالبہ یہ کیا کہ گرمی کی شدت اور سایہ دار درختوں اور مکانوں کی راحت میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہم بہت پریشان ہیں ‘ ایسا نہ ہو کہ یہ تپش اور تمازت ہماری زندگی کا خاتمہ ہی کر دے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تشفی دی اور بارگاہ اقدس میں عرض کیا کہ جب تو نے ان پر بڑے بڑے انعامات اور فضل و کرم کی بارش کی ہے تو اس تکلیف سے بھی ان کو نجات عطا فرما ‘ حضرت موسیٰ کی دعا سنی گئی اور آسمان پر بادلوں کے پرے کے پرے بنی اسرائیل پر سایہ فگن ہوگئے اور بنی اسرائیل جہاں بھی سفر کرتے ہوئے جاتے بادلوں کا یہ سائبان ان کے سروں پر سایہ فگن رہتا۔
سدی کی ایک روایت میں ان ہر سہ ” آیات اللّٰہ “ کا تذکرہ یکجا اس طرح مذکور ہے ” جب بنی اسرائیل ” تیہ “ کے میدان میں پہنچے تو کہنے لگے ” موسیٰ اس لق و دق میدان میں ہمارا کیا حشر ہوگا کہاں سے کھائیں گے ‘ کہاں سے پئیں گے اور کہاں سے سایہ حاصل کریں گے ؟ تب اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے کے لیے من وسلویٰ اتارا ‘ پینے کیلئے بارہ چشمے جاری کردیے اور سایہ کے لیے بادل سایہ فگن ہوگئے۔ “ <ref>(تفسیر ابن کثیر جلد ١ ص ٩٧)</ref></big>