"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 850:
سدی کی ایک روایت میں ان ہر سہ ” آیات اللّٰہ “ کا تذکرہ یکجا اس طرح مذکور ہے ” جب بنی اسرائیل ” تیہ “ کے میدان میں پہنچے تو کہنے لگے ” موسیٰ اس لق و دق میدان میں ہمارا کیا حشر ہوگا کہاں سے کھائیں گے ‘ کہاں سے پئیں گے اور کہاں سے سایہ حاصل کریں گے ؟ تب اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے کے لیے من وسلویٰ اتارا ‘ پینے کیلئے بارہ چشمے جاری کردیے اور سایہ کے لیے بادل سایہ فگن ہوگئے۔ “ <ref>(تفسیر ابن کثیر جلد ١ ص ٩٧)</ref></big>
 
<big>{وَاِذِاسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ } <ref>(البقرۃ : ٢/٦٠)</ref>
 
” اور پھر (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تھا اور ہم نے حکم دیا تھا ‘ اپنی لاٹھی سے پہاڑ کی چٹان پر ضرب لگاؤ ‘ (تم دیکھو گے کہ پانی تمہارے لیے موجود ہے ‘ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس حکم کی تعمیل کی) چنانچہ بارہ چشمے پھوٹ نکلے ‘ اور تمام لوگوں نے اپنے اپنے پانی لینے کی جگہ معلوم کرلی (اس وقت تم سے کہا گیا تھا اس بےآب وگیاہ بیابان میں تمہارے لیے زندگی کی تمام ضرورتیں مہیا ہوگئی ہیں ‘ پس) کھاؤ پیو ‘ خدا کی بخشائش سے فائدہ اٹھاؤ اور ایسا نہ کرو کہ ملک میں فتنہ و فساد پھیلاؤ (یعنی ضروریات معیشت کیلئے لڑائی ‘ جھگڑا کرو یا ہر طرف لوٹ مار مچاتے پھرو) “
{ وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ } <ref>(سورہ البقرۃ : ٢/٥٧)</ref>
” اور (پھر جب ایسا ہوا تھا کہ صحرائے سینا کی بےآب وگیاہ سرزمین میں دھوپ کی شدت اور غذا کے نہ ملنے سے تم ہلاک ہوجانے والے تھے تو) ہم نے تمہارے سروں پر ابر کا سایہ پھیلا دیا ‘ اور من اور سلویٰ کی غذا فراہم کردی (تم سے کہا گیا) خدا نے تمہاری غذا کے لیے جو اچھی چیزیں مہیا کردی ہیں انھیں بفراغت کھاؤ اور (کسی طرح کی تنگی و قلت محسوس نہ کرو ‘ لیکن اس پر بھی تم اپنی بدعملیوں سے باز نہ آئے ‘ غور کرو) تم نے اپنی ناشکریوں سے ہمارا کیا بگاڑا ؟ خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے “
{ وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِہٖ یَعْدِلُوْنَ وَ قَطَّعْنٰھُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ اَسْبَاطًا اُمَمًا وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اِذِ اسْتَسْقٰہُ قَوْمُہٗٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْھِمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْھِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰی کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ } <ref>(الاعراف : ٧/١٥٩‘ ١٦٠)</ref>
” اور موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ (ضرور) ایسا ہے جو لوگوں کو سچائی کی راہ چلاتا اور سچائی ہی کے ساتھ (ان کے معاملات میں) انصاف بھی کرتا ہے اور ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ خاندانوں کے بارہ گروہوں میں منقسم کردیا اور جب لوگوں نے موسیٰ سے پینے کے لیے پانی مانگا تو ہم نے وحی کی کہ اپنی لاٹھی (ایک خاص) چٹان پر مارو چنانچہ بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنی اپنی جگہ پانی کی معلوم کرلی اور ہم نے بنی اسرائیل پر ابر کا سایہ کردیا تھا اور (ان کی غذا کے لیے) من اور سلویٰ اتارا تھا ہم نے کہا تھا ” یہ پسندیدہ غذا کھاؤ جو ہم نے عطا کی ہے (اور فتنہ اور فساد میں نہ پڑو) “ انھوں نے (نافرمانی کر کے) ہمارا تو کچھ نہیں بگاڑا خود اپنے ہاتھوں اپنا ہی نقصان کرتے رہے۔
{ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ قَدْ اَنْجَیْنٰکُمْ مِّنْ عَدُوِّکُمْ وَ وٰعَدْنٰکُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَیْمَنَ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰی کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ لَا تَطْغَوْا فِیْہِ فَیَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبِیْ وَ مَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْہِ غَضَبِیْ فَقَدْ ھَوٰی وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی } <ref>(طٰہ : ٢٠/٨٠ تا ٨٢)</ref>
” اے بنی اسرائیل میں نے تمہارے دشمن سے تمہیں نجات بخشی ‘ تم سے (برکتوں اور کامرانیوں کا) وعدہ کیا جو کوہ طور کے داہنی جانب ظہور میں آیا تھا ‘ تمہارے لیے (صحرائے سینا میں) من اور سلویٰ مہیا کردیا ‘ تمہیں کہا گیا یہ پاک غذا مہیا کردی گئی ہے شوق سے کھاؤ (مگر اس بارے میں) سرکشی نہ کرو ‘ کرو گے تو میرا غضب نازل ہوجائے گا اور جس پر میرا غضب نازل ہوا تو بس وہ ہلاکت میں گرا ‘ جو کوئی توبہ کرے ‘ ایمان لائے ‘ نیک عمل ہو تو میں یقیناً اس کے لیے بڑا ہی بخشش والا ہوں۔ “
عبدالوہاب نجار نے قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ پانی کے وہ چشمے جن کا ذکر بنی اسرائیل کے واقعات میں آیا ہے بحر احمر کے مشرقی بیابان میں سوئز سے زیادہ دور نہیں ہیں اور اب بھی ” عیون موسیٰ “ (موسیٰ کے چشمے) کے نام سے مشہور ہیں ‘ ان چشموں کا پانی اب بہت کچھ سوکھ گیا ہے اور بعض کے تو آثار بھی قریب قریب معدوم ہوگئے ہیں اور کہیں کہیں ان چشموں پر اب کھجور کے باغات نظر آتے ہیں۔
قرآنِ عزیز کے ذکر کردہ واقعات سے کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عصا مار کر پانی کے حاصل کرنے کا واقعہ صرف ایک ہی مرتبہ پیش نہیں آیا بلکہ تیہ کے میدان میں مختلف مقامات پر متعدد مرتبہ پیش آیا ہے۔ بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے طفیل بنی اسرائیل پر خدا تعالیٰ کے احسانات کی مسلسل بارش ہوتی رہی اور سیکڑوں برس کی غلامی سے ان کے عزائم کی پستی ‘ اخلاقی کمزوری اور ہمت و شجاعت کے فقدان نے ان پر جو ایک مستقل مایوسی اور نا امیدی طاری کردی تھی ان خدائی نشانات نے بڑی حد تک ان کی ڈھارس بندھائے رکھی مگر عجیب الفطرت قوم پر اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور انھوں نے اپنی بوالعجبی کا ایک نیا مظاہرہ پیش کردیا ایک دن سب جمع ہو کر کہنے لگے موسیٰ ہم روز روز ایک غذا کھاتے رہنے سے گھبرا گئے ہیں ‘ ہم کو اس من وسلویٰ کی ضرورت نہیں ہے ‘ اپنے خدا سے دعا کر کہ وہ ہمارے لیے زمین سے باقلا ‘ کھیرا ‘ ککڑی ‘ مسور ‘ لہسن ‘ پیاز جیسی چیزیں اگائے تاکہ ہم خوب کھائیں۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا ‘ اور فرمانے لگے : تم بھی کس قدر احمق ہو کہ ایک عمدہ اور بہترین غذا کو چھوڑ کر معمولی اور گھٹیا قسم کی چیزوں کے طلبگار بنے ہو اور اس طرح خدا کی نعمتوں کی ناسپاسی اور اس کے احسانات کی ناشکری کر کے کفران نعمت کرتے ہو ؟ پس اگر واقعی تم کو یہ نعمتیں نہیں بھاتیں اور جن چیزوں کا تم نام لے رہے ہو ان ہی کے لیے اصرار کرتے ہو تو درگاہ الٰہی سے ان کو نشانات کی طرح طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے جاؤ کسی بستی اور شہر میں چلے جاؤ وہاں ہر جگہ تم کو یہ چیزیں وافر مل جائیں گی۔
{ وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ مِنْم بَقْلِھَا وَ قِثَّآئِھَا وَ فُوْمِھَا وَ عَدَسِھَا وَ بَصَلِھَا قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ } <ref>(البقرۃ : ٢/٦١)</ref>
” اور جب تم نے کہا موسیٰ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے پس اپنے پروردگار سے ہمارے لیے دعا کر کہ وہ زمین سے ہمارے لیے باقلا ‘ ککڑی ‘ لہسن ‘ مسور اور پیاز جیسی چیزیں اگائے ‘ موسیٰ نے کہا کیا تم بہتر اور عمدہ چیز کے بدلے میں گھٹیا چیز کے خواہش مند ہو ‘ کسی شہر میں جا قیام کرو ‘ بلاشبہ وہاں یہ سب کچھ مل جائے گا جس کے تم طلب گار ہو۔ “</big>