"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 989:
” اور بیشک ہارون نے پہلے ہی ان (بنی اسرائیل) سے کہا ” اے قوم بلاشبہ تم فتنہ میں ڈال دئیے گئے (اس بچھڑے کے بنانے سے) اور بیشک تمہارا پروردگار بڑا رحم والا ہے پس (اب بھی سمجھو اور) میری پیروی کرو اور میرے حکم کو مانو “ انھوں نے (بنی اسرائیل نے ) کہا ہم اس کی سمادھ ہرگز نہ چھوڑیں گے تا آنکہ موسیٰ لوٹ کر ہمارے پاس نہ آجائے۔ “</big>
 
== ستر سرداروں کا انتخاب ==
<big>جب بنی اسرائیل کا یہ جرم معاف کردیا گیا تو اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ میرے پاس جو یہ ” الواح “ (تختیاں) ہیں ‘ یہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت اور دینی دنیوی و زندگی کی فلاح کے لیے مجھ کو عطا فرمائی ہے یہ توراۃ ہے اب تمہارا فرض ہے کہ اس پر ایمان لاؤ اور اس کے احکام کی تعمیل کرو۔
بنی اسرائیل بہرحال بنی اسرائیل تھے کہنے لگے : موسیٰ ہم کیسے یقین کریں کہ یہ خدا کی کتاب ہے ؟ صرف تیرے کہنے سے تو ہم نہیں مانیں گے ہم تو جب اس پر ایمان لائیں گے کہ خدا کو بےحجاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور وہ ہم سے یہ کہے کہ یہ توراۃ میری کتاب ہے تم اس پر ایمان لاؤ۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو سمجھایا کہ یہ بےوقوفی کا سوال ہے ان آنکھوں سے خدا کو کس نے دیکھا ہے جو تم دیکھو گے ‘ یہ نہیں ہوسکتا ‘ مگر بنی اسرائیل کا اصرار بدستور قائم رہا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا تو کچھ سوچ کر ارشاد فرمایا کہ یہ تو ناممکن ہے کہ تم لاکھوں کی تعداد میں میرے ساتھ حورب (طور) پر اس کی تصدیق کے لیے جاؤ مناسب یہ ہے کہ تم میں سے چند سردار چن کر ساتھ لیے جاتا ہوں وہ اگر واپس آ کر تصدیق کردیں تو پھر تم بھی تسلیم کرلینا ‘ اور چونکہ تم ابھی گوسالہ پرستی کر کے ایک بہت بڑا گناہ کرچکے ہو اس لیے اظہار ندامت اور خدا سے آئندہ نیکی کے عہد کیلئے بھی یہ موقع مناسب ہے۔ قوم اس پر راضی ہوگئی۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تمام اسباط سے ستر سرداروں کو چن کر ساتھ لیا اور طور پر جا پہنچے ‘ طور پر ایک سپید بادل کی طرح ” نور “ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو گھیر لیا اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی شروع ہوگئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ تو بنی اسرائیل کے حالات کا دانا و بینا ہے ‘ میں ان کی ضد پر ستر آدمی انتخاب کر لایا ہوں ‘ کیا اچھا ہو کہ وہ بھی اس ” حجاب نور “ سے میری اور تیری ہم کلامی کو سن لیں اور قوم کے پاس جا کر تصدیق کرنے کے قابل ہوجائیں ؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا منظور فرما لی اور ان کو ” حجاب نور “ میں لے لیا گیا اور انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ رب العالمین کی ہم کلامی کو سنا ‘ پھر جب پر دہ نور ہٹ گیا ‘ اور حضرت موسیٰ اور ان سرداروں کے درمیان مواجہہ ہوا تو سرداروں نے وہی اپنا پہلا اصرار قائم رکھا کہ جب تک بےحجاب خدا کو نہ دیکھ لیں ہم ایمان لانے والے نہیں ‘ اس احمقانہ اصرار اور ضد پر غیرت الٰہی نے ان کو یہ سزا دی کہ ایک ہیبت ناک چمک ‘ کڑک اور زلزلہ نے ان کو آلیا اور جلا کر خاک کردیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا تو درگاہ الٰہی میں عاجزی کے ساتھ دعا مانگی الٰہی یہ بیوقوف اگر بےوقوفی کر بیٹھے تو کیا تو ہم سب کو ہلاک کر دے گا اے خدا اپنی رحمت سے تو ان کو معاف کر دے حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کو سنا اور ان سب کو دوبارہ حیات تازہ بخشی اور پھر جب وہ زندگی کا لباس پہن رہے تھے تو ایک دوسرے کی تازہ زندگی کو آنکھوں سے دیکھ رہے تھے :
{ وَ اخْتَارَ مُوْسٰی قَوْمَہٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَا فَلَمَّآ اَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَھْلَکْتَھُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِیَّایَ اَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَھَآئُ مِنَّا اِنْ ھِیَ اِلَّا فِتْنَتُکَ تُضِلُّ بِھَا مَنْ تَشَآئُ وَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآئُ اَنْتَ وَ لِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ وَ اکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآ اِلَیْکَ قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ } <ref>(سورہ الاعراف : ٧/١٥٥ تا ١٥٧)</ref>
” اور اس غرض سے کہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت میں حاضر ہوں موسیٰ نے اپنی قوم میں سے ستر آدمی چنے پھر جب لرزا دینے والی ہول ناکی نے انھیں آلیا تو موسیٰ نے (ہماری جناب میں) عرض کیا ” پروردگار اگر تو چاہتا تو ان سب کو اب سے پہلے ہی ہلاک کر ڈالتا اور خود میری زندگی بھی ختم کردیتا (مگر تو نے اپنے فضل و رحمت سے ہمیں مہلت دی) پھر کیا ایک ایسی بات کے لیے جو ہم میں سے چند بیوقوف آدمی کر بیٹھے ہیں تو ہم سب کو ہلاک کر دے گا ؟ یہ اس کے سوا کیا ہے کہ تیری طرف سے ایک آزمائش ہے تو جسے چاہے اس میں بھٹکا دے جسے چاہے راہ دکھادے ‘ خدایا تو ہمارا والی ہے ‘ ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر ‘ تجھ سے بہتر بخشنے والا کوئی نہیں اور (خدایا) اس دنیا کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی لکھ دے ‘ اور آخرت کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی کر ‘ ہم تیری طرف لوٹ آئے “ خدا نے فرمایا ” میرے عذاب کا حال یہ ہے کہ جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں اور رحمت کا حال یہ ہے کہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے پس میں ان کے لیے رحمت لکھ دوں گا جو برائیوں سے بچیں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور ان کیلئے جو میری نشانیوں پر ایمان لائیں گے جو ” الرسول “ کی پیروی کریں گے کہ نبی امی ہوگا اور اس کے ظہور کی خبر اپنے یہاں توراۃ اور انجیل میں لکھی پائیں گے وہ انھیں نیکی کا حکم دے گا برائی سے روکے گا پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا ‘ گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوں گے اور ان پھندوں سے نکالے گا جن میں گرفتار ہوں گے تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کے مخالفوں کیلئے روک ہوئے (راہ حق میں) اس کی مدد کی اور اس روشنی کے پیچھے ہو لیے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو وہی ہیں جو کامیابی پانے والے ہیں۔ “
{ وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْم بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ } <ref>(البقرۃ : ٢/٥٥‘ ٥٦)</ref>
اور جب تم نے کہا ” اے موسیٰ ہم تجھ پر اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو بےحجاب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں پس آنکھوں دیکھتے تم کو بجلی کی کڑک نے آپکڑا ‘ پھر ہم نے تم کو موت کے بعد زندہ کیا تاکہ تم شکرگزار رہو۔ “</big>