"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 1,062:
</big>
 
== ذبح بقرہ کا واقعہ ==
 
<big>ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ بنی اسرائیل میں ایک قتل ہوگیا مگر قاتل کا پتہ نہ لگا ‘ آخر شبہ نے تہمت کی شکل اختیار کرلی اور اختلاف باہمی کی خوفناک صورت پیدا ہوگئی ‘ حضرت موسیٰ کے سامنے جب یہ واقعہ پیش ہوا تو انھوں نے خدائے تعالیٰ کی جانب رجوع کیا اور عرض کیا کہ اس واقعہ نے قوم میں سخت اختلاف رونما کردیا ہے ‘ تو خود علیم و حکیم ہے میری مدد فرما۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ ان سے کہو کہ پہلے ایک گائے ذبح کریں اور اس کے بعد گائے کے ایک حصہ کو مقتول کے جسم سے مس کریں ‘ پس اگر وہ ایسا کریں گے تو ہم اس کو زندگی بخش دیں گے اور یہ معاملہ واضح ہوجائے گا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے جب ” ذبح بقرہ “ کے متعلق فرمایا تو انھوں نے اپنی کج بحثی اور حیلہ جوئی کی خصلت کے مطابق بحث شروع کردی۔
موسیٰ کیا تو ہم سے مذاق کرتا ہے یعنی مقتول کے واقعہ سے ذبح بقرہ کا کیا تعلق ؟ اچھا اگر واقعی یہ خدا کا حکم ہے تو وہ گائے کیسی ہو ؟ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ اس کی کچھ اور تفصیلی صفات معلوم ہونی چاہئیں ‘ کیونکہ ابھی تک اس کے تعین کے متعلق ہم مشتبہ حالت میں ہیں۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب وحی الٰہی کی معرفت سے ان کے تمام سوالات کے جوابات دے دئیے اور حیلہ جوئی کرنے کیلئے کوئی موقع باقی نہیں رہا تب وہ تعمیل حکم پر آمادہ ہوئے اور وحی الٰہی کے مطابق معاملہ کو سرانجام کیا ‘ خدا کے حکم سے وہ مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے تمام واقعہ من و عن بیان کردیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب اس حیرت زا ” خدائی نشان “ نے حقیقت کو واشگاف کردیا تو قاتل کو بھی اقرار کئے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا اور اس طرح نہ صرف قاتل ہی کا پتہ چل گیا بلکہ مختلف اسباط اور خاندانوں میں اختلاف پیدا ہو کر جو سخت خانہ جنگی اور خون ریزی کی صورت رونما ہو چلی تھی اس کا بھی خوش اسلوبی کے ساتھ خاتمہ ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اس تاریخی واقعہ کو یاد دلا کر دو باتوں کی جانب توجہ دلائی ہے ‘ ایک منکرین معاد کو یہ بتایا ہے کہ جس قوم کے اسلاف میں یہ واقعہ ہو گزرا ہے وہ آج تک اس تاریخی واقعہ کی شاہد ہیں ‘ لہٰذا جس طرح خدا نے اس وقت مردہ کو زندہ کر کے اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا تھا تم سمجھ لو وہ قیامت کے دن بھی اسی طرح مردے کو زندگی عطا فرمائے گا :
{ کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی } <ref>(البقرۃ : ٢/٧٣)</ref>
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ مردہ کو زندہ کردیا کرتا ہے۔ “
دوسرے بنی اسرائیل کو یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو (یعنی تمہارے اسلاف کو) اتنی کثرت کے ساتھ اپنے نشان (معجزات) دکھائے ہیں کہ اگر دوسری قوم کے سامنے یہ مظاہرے کئے جاتے تو وہ ہمیشہ کیلئے خدائے تعالیٰ کی فرمان بردار بن جاتی اور اس کے دل میں ایک لمحہ کیلئے بھی نافرمانی کا خطرہ نہ گزرتا لیکن تم اور تمہارے اسلاف پر یا تو اثر ہی نہ ہوا اور اگر ہوا بھی تو ناپائیدار اور غیر موثر ثابت ہوا اور آج بھی اگر تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار اور ان کی مخالفت کر رہے ہو تو یہ تمہاری جبلت اور قدیم عصبیت و جہالت ہی کا اثر ہے۔
قرآن عزیز نے ہم کو اس واقعہ کے متعلق صرف اسی قدر بتایا ہے اور اس سے زیادہ کوئی تفصیل نہیں دی :
{ وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ھِیَ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِکْرٌ عَوَانٌم بَیْنَ ذٰلِکَ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُھَا قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ صَفْرَآئُ فَاقِعٌ لَّوْنُھَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ھِیَ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیْنَا وَ اِنَّآ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ لَمُھْتَدُوْنَ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیْھَا قَالُوا الْئٰنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوْھَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَئْتُمْ فِیْھَا وَ اللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی وَ یُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ } <ref>(البقرۃ : ٢/٦٧ تا ٧٣)</ref>
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ” بلاشبہ تم کو خدا یہ حکم دیتا ہے کہ تم گائے ذبح کرو “ وہ کہنے لگے ” کیا تو ہمارے ساتھ مذاق کرتا ہے “ موسیٰ نے کہا ” میں اللہ سے پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ جاہلوں میں شمار ہوں “ (یعنی یہ مذاق نہیں ہے) انھوں نے کہا ” تو اپنے پروردگار سے یہ دریافت کر کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ “ موسیٰ نے کہا : اللہ تعالیٰ کہتا ہے ” وہ ایسی گائے ہو کہ نہ تو بڑھیا ہو اور نہ بچھیا بلکہ درمیانی عمر کی جوان ہو ‘ پس اب جو تم سے کہا گیا ہے اس کی تعمیل کرو “ وہ کہنے لگے ” اپنے خدا سے پوچھ کہ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ “ موسیٰ نے کہا اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ” وہ گہرے زرد رنگ کی ہو کہ دیکھنے والوں کو خوش رنگ معلوم ہو “ کہنے لگے ” ہم پر (ابھی تک) گائے کی کیفیت مشتبہ ہے اگر خدا کو منظور ہے تو ہم کامیاب ہوجائیں گے۔ “ موسیٰ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ” وہ ایسی گائے ہو کہ نہ محنت ماری ہو کہ زمین میں ہل چلاتی ہو اور نہ کھیت کو سیراب کرتی ہو۔ وہ بےداغ ہو جس پر کسی قسم کا دھبہ نہ ہو “ کہنے لگے ” اب تو صحیح بات لایا “ پس انھوں نے اس کو حاصل کر کے ذبح کیا ‘ اور قریب تھا کہ نہ کرتے اور یہ جب ہوا کہ تم نے ایک جان کو قتل کردیا پھر آپس میں اختلاف کرنے لگے ‘ اور اللہ ظاہر کرنے والا ہے اس بات کو جس کو تم چھپاتے ہو ‘ پس ہم نے کہا : ” اس مقتول کو گائے کے بعض حصے کے ساتھ مس کرو (مارو) اللہ تعالیٰ اسی طرح مردوں کو زندہ کردیتا ہے ‘ اور تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو۔ “
صحیح حدیث میں ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے فرماتے ہی ” ذبح بقرہ “ کی تعمیل کردیتے تو ان کیلئے گائے کے معاملہ میں کسی قسم کی مطلق قید و بند نہ ہوتی اور وہ کوئی سی گائے بھی ذبح کردیتے تو تعمیل پوری ہوجاتی۔ مگر انھوں نے بےہودہ سوالات کر کے اپنے اوپر پابندیاں لگوائیں ‘ چنانچہ پیغمبر خدا کے ساتھ اس قسم کی بےہودہ باتوں اور کج بحثیوں کی قرآن عزیز نے سخت مذمت کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس کا آخر نتیجہ کفر اور ترک ایمان پر جا کر ختم ہوتا ہے ‘ لہٰذا امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی باتوں سے بچے۔
{ اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَکُمْ کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ } <ref>(البقرۃ : ٢/١٠٨)</ref>
” کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اس قسم کے سوال کرو جس طرح پہلے زمانہ میں موسیٰ سے سوالات کئے گئے تھے اور جو شخص ایمان کے عوض کفر اختیار کرتا ہے وہ بلاشبہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ “
اس موقع پر یہ سوال ضرور سامنے آجاتا ہے کہ آخر ” ذبح بقرہ “ اور مقتول کے زندہ کردینے کے درمیان کیا مناسبت ہے جو احیائے مقتول کیلئے یہ خاص صورت اختیار کی گئی ؟ سو خدا کی حکمتوں اور مصلحتوں تک پہنچنا تو انسانی قدرت سے باہر ہے ‘ تاہم عقل و شعور کی جو روشنی اس نے انسان کو بخشی ہے وہ اس طرف راہنمائی کرتی ہے کہ اگر بنی اسرائیل کی اس تاریخ پر نظر کی جائے جو گزشتہ صفحات میں سپرد قلم ہوچکی ہے تو یہ بات بخوبی روشن ہوجاتی ہے کہ مصر کے بودوماند نے ان کے اندر بت پرستی خصوصاً گائے کی عظمت و تقدیس اور گوسالہ پرستی کا جذبہ بہت زیادہ پیدا کردیا تھا جو جگہ جگہ ابھر آتا اور ان پر اثر انداز ہونے لگتا تھا ‘ چنانچہ گوسالہ پرستی کے واقعہ کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے توراۃ کی تعمیل کیلئے فرمایا تو اس وقت بھی انھوں نے کافی حیلہ جوئی سے کام لیا تھا اور اگر ” رفع طور “ کا نشان ان پر ظاہر نہ ہوتا تو وہ حضرت موسیٰ کی تکذیب پر اتر آتے تو کچھ تعجب نہ تھا خدائے تعالیٰ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا ہے کہ اس تعنت اور حیلہ سازی کی خصلت کا باعث وہی گوسالہ پرستی ہے۔ ابھی تک ان کے دلوں سے بت پرستی اور گوسالہ کی تقدیس کا عقیدہ دور نہیں ہوا بلکہ ان کی حالت سے یہ انداز ہوتا ہے کہ یہ تقدیس ان کے دلوں میں رچ گئی ہے :
{ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّ اسْمَعُوْا قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِھِمْ قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُکُمْ بِہٖٓ اِیْمَانُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ } <ref>(البقرۃ : ٢/٩٣)</ref>
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے سروں پر طور بلند کردیا (اور کہا) جو ہم نے تم کو دیا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑو اور اس پر کان دھرو۔ انھوں نے کہا : ہم نے سنا اور (عمل سے بتایا کہ ہم نے) نافرمانی کی اور اصل بات یہ ہے کہ ان کے دلوں میں کفر کی وجہ سے گوسالہ رچ گیا ہے۔ (اے مخاطب) کہہ دے اگر تم اپنے قول کے مطابق مومن ہو تو تمہارے ایمان نے یہ فیصلہ ہی برا کیا ہے۔ “
{ وَ لَقَدْ جَآئَکُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ } <ref>(البقرۃ : ٢/٩٢)</ref>
” اور بےشبہ موسیٰ تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آیا پھر تم نے اس کے بعد گوسالہ بنا لیا اور تم خود اپنے لیے ظالم ہو۔ “
پس اس موقع پر خدا کی مصلحت نے یہ فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل کی اس گمراہی کو کسی ایسے عمل سے دور کرے جس کا مشاہدہ خود ان کی آنکھیں کر رہی ہوں۔ لہٰذا ان کو مشاہدہ کرایا کہ جس کی تقدیس تمہارے دل میں اس قدر پیوست ہوگئی ہے کہ بار بار نمایاں ہوتی ہے ‘ اس (گائے) کی حقیقت یہ ہے کہ تم نے خود اپنے ہاتھوں سے اس کو فنا کے گھاٹ اتار دیا اور وہ تمہارا بال بھی بیکانہ کرسکی اور کہیں یہ خیال نہ کر بیٹھنا کہ یہ گائے کی تقدیس ہی کا اثر تھا کہ اس کے پارہ گوشت کے مس کرنے سے مردہ زندہ ہوگیا اس لیے کہ اگر موت وحیات کا یہ معاملہ گائے کی تقدیس سے متعلق تھا ‘ تو جس پارہ گوشت نے مردہ کو زندہ کردیا وہ خود زندگی حاصل کر کے کیوں دوبارہ جیتی جاگتی گائے نہ بن گیا ‘ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ گائے جس کو تم نے ذبح کیا تھا اسی طرح بےجان پڑی ہے اور اس کے پارہائے جسم تمہارے درمیان زینت دستر خوان ہوچکے ہیں۔
حقیقت حال یہ ہے کہ موت وحیات کا یہ معاملہ صرف خدا کے ہاتھ میں ہے اور جس ” گوسالہ پرستی “ کی محبت تمہارے دلوں میں رچ گئی ہے وہ تم سے بھی ادنیٰ ایک جان دار ہے جو صرف تمہاری خدمت اور ضرورت کیلئے بنایا گیا ہے نہ کہ تمہارے لیے ” دیوتا “ اور ” دیوی “ خدائے تعالیٰ ہی کی ذات واحد ہے کہ جس کو چاہے موت دے اور جس کو چاہے حیات بخشے ‘ چنانچہ تم نے ایک ہی واقعہ میں دونوں حقیقتوں کا مشاہدہ کرلیا کہ اس نے گائے کی زندگی کو فنا سے بدل دیا اور انسان کے مردہ جسم کو حیات تازہ بخش دی۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ <ref>(سورہ حشر ٥٩/٢)</ref>
قرآن عزیز نے غالباً اسی حکمت کے پیش نظر ” ذبح بقرہ “ کے واقعہ کو دو حصوں پر تقسیم کردیا ہے ‘ پہلے حصہ میں بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کے واقعہ کی تائید میں بقرہ کا یہ واقعہ بیان کیا گیا کہ جب ایک خاص مقصد کیلئے بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کو کہا گیا تھا تو یہی گوسالہ پرستی کی محبت ان کے آڑے آئی تھی اور مصریوں کے عقیدہ تقدیس بقرہ (گائے کی تقدیس) کے اتباع میں انھوں نے بیسیوں حیلے بہانے تراشے اور یہ کوشش کی کہ کسی طرح ان کو گائے ذبح نہ کرنی پڑی ‘ لیکن جب سوالات کی پیچیدگی میں آ کر پھنس گئے تو مجبوراً تعمیل کرنی پڑی۔
قرآن نے جب اس واقعہ کو سنایا تو قدرتی طور پر سامعین کو شوق پیدا ہونا چاہیے تھا کہ وہ یہ معلوم کریں کہ ذبح بقرہ کا وہ واقعہ کیوں اور کس طرح پیش آیا جس کے بارے میں بنی اسرائیل اس قدر حیلے تراش رہے تھے تو دوسرے حصہ میں قرآن عزیز نے اس پیدا شدہ فطری سوال کا جواب اس طرح دیا کہ اس واقعہ کے نمایاں پہلو کو بیان کردیا جس کا بنی اسرائیل کی اس ردوکد کے ساتھ حقیقی تعلق تھا ‘ اس لیے اس حصہ بیان کو دوبارہ لفظ ” اذ “ سے شروع کیا۔
قرآن عزیز کی ان آیات کی یہ وہ تفسیر ہے جو قرآن کے جملوں کے اندر محدود ہو کر کی گئی ہے اور جس میں ذبح بقرہ کے واقعہ سے متعلق آیات میں تقدیم و تاخیر کی بحثوں میں جانے کی مطلق ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ واقعہ کو اچنبھا سمجھ کر باطل اور رکیک تاویلات کی پناہ لینے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔
بلاشبہ یہ واقعہ خدائے تعالیٰ کے ان مسلسل نشانوں میں سے ایک ” نشان “ تھا جو یہود کی سخت اور تند جبلت اور متمردانہ خصلت کے مقابلہ میں تائید حق کیلئے حکمت الٰہی کے پیش نظر ظہور میں آیا اور جو نشان ہونے کے علاوہ اپنے اندر متعدد اہم مصالح رکھتا تھا اور اس حقیقت ثابتہ کیلئے خود قرآن عزیز کا سیاق وسباق تائید کرتا ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کے متصل ہی ارشاد ہے
{ کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی } <ref>(البقرۃ : ٢/٧٣)</ref>
” اور اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کر دے گا “
اور اسی کے سیاق میں ارشاد فرمایا وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ ” تاکہ دکھائے تم کو اپنی قدرت کے نشان “
گویا ” ذبح بقرہ “ کا واقعہ نقل کرنے سے قبل بنی اسرائیل کو بار بار خدائی نشان کے مشاہدہ کرانے کا ذکر اور پھر قصہ کے متصل ہی آخرت میں ” احیائے موتیٰ “ کا اس واقعہ سے استشہاد اور پھر اس واقعہ کو بھی ” آیات اللہ “ میں سے ایک آیت (نشان) بتانا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ کسی تاویل اور دور از کار باتوں کی پناہ لیے بغیر ان آیات کی صاف اور سادہ تفسیر وہی ہے جو سطور بالا میں بیان کی گئی۔
لہٰذا ان آیات کی وہ تفاسیر جو جدید معاصرین نے بیان کی ہیں اور جن میں تمام آیات متعلقہ کو کبھی دو جدا واقعات کہہ کر اور کبھی ایک واقعہ تسلیم کر کے مختلف رکیک اور لچر تاویلات سے کام لیا گیا ہے ناقابل تسلیم ہیں اور قرآن عزیز کے منطوق کے خلاف۔
مثلاً کہا جاتا ہے کہ ذبح بقرہ کا یہ طریقہ دراصل خود بنی اسرائیل کی قدیم رسوم میں سے تھا جس کا ذکر اب تک توراۃ میں موجود ہے یعنی جب کسی جگہ ایسا مقتول پایا جاتا کہ اس کے قاتل کا پتہ نہ ملتا تو باہمی جنگ وجدال سے بچانے کے لیے یہ طریقہ مروج تھا کہ وہ ایک ایسی گائے کو حاصل کرتے جو نہ کاشت کے کام میں آئی ہو اور نہ سیرابی کی خدمت کرچکی ہو اور اس کو ایسی وادی میں لے جاتے جہاں کاشت کبھی نہ ہوئی ہو اور پانی کا نالہ بہہ رہا ہو ‘ اور جس پر قاتل ہونے کا شبہ ہوتا تو اس کے محلہ ‘ خاندان یا بستی کے لوگوں کو جمع کیا جاتا اور پھر کاہن آگے بڑھتا اور بہتے ہوئے پانی پر گائے کو کھڑا کر کے اس کی گردن مارتا اور جب اس کا خون پانی میں مل جاتا تو فوراً مشتبہ گروہ کے لوگ اٹھ کر اس خون آلود پانی سے ہاتھ دھوتے جاتے اور پکار پکار کر یہ کہتے جاتے کہ ” نہ ہمارے ہاتھوں نے اس کو قتل کیا ہے اور نہ ہمیں قاتل کا پتہ معلوم ہے “ تو پھر ان پر کوئی شبہ باقی نہ رہتا اور خانہ جنگی نہ ہونے پاتی ‘ اور اگر مشتبہ گروہ کا ایک سردار بھی ہاتھ دھونے اور اس رسم میں شریک ہونے سے انکار کردیتا تو پھر مقتول کا خون بہا اس خاندان یا محلہ پر ڈال دیا جاتا تھا جس کا وہ سردار ہے۔
<ref>(استثناء باب ٢١ آیات ١۔ ٩)</ref>
اس تفسیر میں قرآن عزیز کے سیاق و سباق کے لحاظ سے جو نقائص ہیں وہ معمولی فہم و عقل سے بھی معلوم ہوسکتے ہیں لیکن ان کے علاوہ سب سے زیادہ قابل اعتراض یہ امر ہے کہ اگر بنی اسرائیل میں یہ دستور قدیم سے رائج تھا تو جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی رسم کے مطابق خدائے تعالیٰ کا فیصلہ سنایا تو بنی اسرائیل نے اس کو اجنبی نگاہ سے کیوں دیکھا اور یہ کیوں کہا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا اے موسیٰ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے کہ گائے ذبح کرنے کو کہتا ہے اور اگر ازراہ تعنت ان کا سوال تھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یہی جواب دیتے کہ اس میں حیرت و تعجب کا کون سا موقع ہے جبکہ تم خود جانتے ہو کہ قضیہ کے فیصلہ کا یہ پرانا طریقہ ہے۔
اس سلسلہ میں گائے حاصل کرنے سے متعلق کتب تفاسیر میں عجیب و غریب قصے مذکور ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام قصص اسرائیلیات سے منقول ہیں یعنی یہ وہ قصے ہیں جو یہود کی نقل و روایت سے شہرت پا گئے اور تفسیروں میں بھی درج کر دئیے گئے ہیں مگر محققین نے ان کو چھان کر تفسیر قرآن سے بالکل جدا کردیا ہے چنانچہ حافظ عماد الدین ابن کثیر جیسے جلیل القدر مفسر نے ان قصص کے متعلق یہ فیصلہ دیا ہے :
” اور یہ سلسلہ بیانات جو عبیدہ ‘ ابو العالیہ اور سدی اور دوسروں سے مروی ہے ان سب کے آپس میں اختلاف ہے اور صاف بات یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی کتابوں سے ماخوذ ہیں اور اگرچہ ان کا نقل کرنا درجہ جواز میں آسکتا ہے مگر ہم نہ ان کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ تکذیب اور اسی بنا پر ان روایات پر قطعاً کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا مگر وہ روایات جو ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کی روشنی میں حق ہوں۔ واللہ اعلم۔ “
اور خاص اس واقعہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :
” گائے کا وہ کون سا حصہ تھا جو مردہ جسم پر مس کیا گیا سو وہ کوئی بھی حصہ ہو واقعہ میں جس قدر مذکور ہے معجزہ ہونے کیلئے وہ بھی کافی ہے اور اگر اس حصہ کا تعین بھی ہمارے دینی یا دنیوی حالات کے اعتبار سے ضروری ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور واضح فرما دیتے مگر اس نے اس کو مبہم ہی رکھا ہے اگرچہ اصل حقیقت کے لحاظ سے وہ بہرحال متعین ہے اور نبی معصوم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس کے تعین کے متعلق کوئی صحیح روایت ثابت نہیں ہے لہٰذا ہمارے لیے بھی یہی مناسب ہے کہ ہم بھی اس کو اسی طرح مبہم رہنے دیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو مبہم رکھا۔ “ <ref>(البدایہ والنہایہ جلد اول صفحہ ١١٢)</ref>
علاوہ ازیں مسلم کی حدیث میں صرف اسی قدر مذکور ہے کہ ” اگر بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ردو کد نہ کرتے تو گائے کے معاملہ میں ان پر پابندیاں عائد نہ ہوتیں “ پس اگر اس معاملہ سے متعلق اور تفاصیل بھی ہوتیں تو نبی معصوم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا بھی ذکر ضرور فرماتے۔
غرض یہ واقعہ حق تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ” عظیم نشان “ ہے ‘ البتہ قرآن عزیز نے جو تفصیل بیان کی ہے صرف اسی قدر قابل تسلیم ہے باقی سب قصص و حکایات ہیں اور لاطائل داستانیں۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات سے متعلق ان مباحث کا خطاب ان ہی مفسرین کے ساتھ ہے جو اصولاً معجزات انبیاء کے تو قائل ہیں ‘ مگر ان مقامات میں تاویل کی گنجائش سمجھ کر ایسی تاویلات کرتے ہیں جن کی بدولت یہ واقعات معجزہ کی حد سے باہر ہوجائیں باقی جو ملاحدہ اسلام کے مسلمہ عقیدہ معجزہ کے ہی قائل نہیں ہیں اور اس لیے قرآن عزیز کے ایسے تمام واقعات کو باطل تاویلات کی نذر کردینا ہی ضروری سمجھتے ہیں تو ان کے لیے سب سے پہلے نفس معجزہ کے امکان پر گفتگو ہونی چاہیے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ ان عظیم الشان ” آیات اللّٰہ “ کے مشاہدہ اور ان پر خدائے تعالیٰ کے بےغایت فضل و کرم کے باوجود ان بدبختوں پر کوئی اثر نہ ہوا اور یہ اسی طرح کج روی اور زیغ پر قائم رہے قبول حق کے لیے ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوگئے ‘ بلکہ پیہم تمردو سرکشی نے ان کی نیک استعداد کو فنا کر کے پتھر سے بھی زیادہ سخت بنادیا اس لیے کہ پتھر میں سختی ہوتے ہوئے بھی اس سے مخلوق خدا کو بہت سے فائدے ہیں مگر ان کی زندگی کا تو بجز خسارہ اور نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں رہا۔
{ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْھٰرُ وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآئُ وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ }
<ref>(البقرۃ : ٢/٧٤)</ref>
” اس (مشاہدہ) کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے پس یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا (دل نہیں) پتھر ہیں یا (یوں سمجھو) کہ پتھر سے بھی زیادہ سخت (یہ بات واضح ہے) کہ بعض پتھروں سے پانی نکل کر نہریں بہتی ہیں اور بعض چٹخ کر پھٹتے ہیں تو ان سے سوت جاری ہوجاتے ہیں اور بعض خدا کے خوف سے (بھونچال وغیرہ حالتوں میں) نیچے لڑھک آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوتوں سے غافل نہیں ہے۔ “
مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے قلوب کی سختی اور قبول حق میں بےاثری کا یہ عالم ہے کہ اگر محاورہ اور بول چال کے مطابق یوں کہہ دیا جائے کہ ان کا دل پتھر کا ٹکڑا بن گیا ہے تب بھی ان کی شدت و صلابت کی صحیح تصویر سامنے نہیں آسکتی ‘ اس لیے کہ پتھر اگرچہ سخت ہے مگر ناکارہ نہیں ہے کیا تم نے پہاڑوں کا مشاہدہ نہیں کیا اور نہیں دیکھا کہ ان ہی سخت پتھروں سے ندیاں اور دریا بہہ رہے ہیں اور کہیں ان ہی سے شیریں اور خنک پانی کے سوت جاری ہیں اگر بھونچال آجائے یا خدا کی مشیت کا کوئی اور فیصلہ ہوجائے تو پہاڑوں کی یہی دیوپیکر چٹانیں روئی کے گالوں کی طرح ٹوٹ کر اور اڑ کر سرنگوں ہوجاتی اور خدائے تعالیٰ کے خوف و خشیت کا زبان حال سے اقرار کرتی ہیں مگر ان بنی اسرائیل پر نہ آیات اللہ کا اثر ہوتا ہے نہ پیغمبر کی شیریں اور دل نشیں پند و نصائح کا اور نہ نافرمانی کرتے وقت خدا کا خوف ان کے دلوں پر طاری ہوتا ہے۔</big>