"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
درستی کے لیے
سطر 375:
{ اِذْھَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْکَ بِاٰیٰتِیْ وَ لَا تَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی قَالَا رَبَّنَآ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَآ اَوْ اَنْ یَّطْغٰی قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی فَاْتِیٰہُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَ لَا تُعَذِّبْھُمْ قَدْ جئْنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی } <ref>(سورہ طٰہ : ٢٠/٤٢ تا ٤٧)</ref>
” اب تو اور تیرا بھائی دونوں میری نشانیاں لے کر جائیں اور میری یاد میں کوتاہی نہ کریں ہاں تم دونوں (یعنی موسیٰ اور ہارون کیونکہ اب دونوں اکٹھے ہوگئے تھے اور مصر کے قریب وحی الٰہی نے انھیں دوبارہ مخاطب کیا تھا) فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکشی میں بہت بڑھ چلا ہے پھر جب اس کے پاس پہنچو تو سختی کے ساتھ پیش نہ آنا ‘ نرمی سے بات کرنا (تمہیں کیا معلوم ؟ ) ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت پکڑے یا (عواقب سے) ڈر جائے دونوں نے عرض کیا ” پروردگار ہمیں اندیشہ ہے کہ فرعون ہماری مخالفت میں جلدی نہ کرے یا سرکشی سے پیش آئے ‘ ارشاد ہوا ” کچھ اندیشہ نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں میں سب کچھ سنتا ہوں سب کچھ دیکھتا ہوں تم اس کے پاس بےدھڑک جاؤ اور کہو ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں ‘ پس تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔ اور ان کی سزائیں موقوف کر۔ ہم تیرے پروردگار کی نشانی لے کر تیرے سامنے آگئے اس پر سلامتی ہو جو سیدھی راہ اختیار کرے۔ “
{ وَلَقَدْ اتَیْنَا مُوْسٰی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنَا مَعَہٗ اَخَاہُ ہَارُوْنَ وَزِیْرًا فَقُلْنَا اذْہَبَا اِلَی الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَدَمَّرْنَاہُمْ تَدْمِیْرًا } <ref>(سورہ الفرقان : ٢٥/٣٥‘ ٣٦)</ref>
” اور ہم نے دی موسیٰ کو کتاب اور کردیا ہم نے اس کے ساتھ اس کا بھائی ہارون کام بٹانے والا پھر کہا ہم نے دونوں جاؤ ان لوگوں کے پاس جنہوں نے جھٹلایا ہماری باتوں کو پھر دے مارا ہم نے ان کو اکھاڑ کر۔ “
{ وَاِذْ نَادٰی رَبُّکَ مُوْسٰی اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ قَوْمَ فِرْعَوْنَ َالَا یَتَّقُوْنَ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِیْ وَیَضِیْقُ صَدْرِیْ وَلَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰی ہَارُوْنَ وَلَہُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِیْ قَالَ کَلَّا فَاذْہَبَا بِاٰیٰتِنَا اِنَّا مَعَکُمْ مُسْتَمِعُوْنَ فَاْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَا اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ }
سطر 384:
{ فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَھْلِہٖٓ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا قَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْٓا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَۃٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ فَلَمَّآ اَتٰھَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیِٔ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَاٰھَا تَھْتَزُّ کَاَنَّھَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْ یٰمُوْسٰٓی اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ اِنَّکَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ اُسْلُکْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ وَّ اضْمُمْ اِلَیْکَ جَنَاحَکَ مِنَ الرَّھْبِ فَذٰنِکَ بُرْھَانٰنِ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِہٖ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ قَتَلْتُ مِنْھُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ وَ اَخِیْ ھٰرُوْنُ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْٓ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ وَ نَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطٰنًا فَـلَایَصِلُوْنَ اِلَیْکُمَا بِاٰیٰتِنَآ اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَکُمَا الْغٰلِبُوْنَ } <ref>(سورہ القصص : ٢٨/٢٩ تا ٣٥)</ref>
” پھر جب پوری کرچکا موسیٰ وہ مدت اور لے کر چلا اپنے گھر والوں کو دیکھی کوہ طور کی طرف سے ایک آگ ‘ کہا اپنے گھر والوں کو ٹھہرو میں نے دیکھی ہے آگ شاید لے آؤں تمہارے پاس وہاں کی کچھ خبر یا انگارہ آگ کا تاکہ تم تاپو پھر جب پہنچا اس کے پاس ‘ آواز ہوئی میدان کے داہنے کنارے سے ‘ برکت والے تختہ میں ایک درخت سے کہ اے موسیٰ میں ہوں میں اللہ جہان کا رب اور یہ کہ ڈال دے اپنی لاٹھی پھر جب دیکھا اس کو پھن ہلاتے جیسے پتلا سانپ ‘ الٹا پھرا منہ موڑ کر اور نہ دیکھا پیچھے پھر کر۔ اے موسیٰ آگے آ اور مت ڈر تجھ کو کچھ خطرہ نہیں ڈال اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ‘ نکل آئے سفید ہو کر نہ کہ کسی برائی سے اور لائے اپنی طرف اپنا بازو ڈر سے ‘ سو یہ دو سندیں ہیں تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے سرداروں پر ‘ بیشک وہ تھے لوگ نافرمان۔ بولا اے رب میں نے خون کیا ہے ان میں ایک جان کا سو ڈرتا ہوں کہ مجھ کو مار ڈالیں گے اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان چلتی ہے مجھ سے زیادہ سو اس کو بھیج میرے ساتھ مدد کو کہ میری تصدیق کرے میں ڈرتا ہوں کہ مجھ کو جھوٹا کریں فرمایا ہم مضبوط کردیں گے تیرے بازو کو تیرے بھائی سے اور دیں گے تم کو غلبہ پھر وہ نہ پہنچ سکیں گے تم تک ہماری نشانیوں سے ‘ تم اور جو تمہارے ساتھ ہو غالب رہو گے۔ “
{ وَ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَ جَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلًا ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا } <ref>(سورہ بنی اسرائیل : ١٧/٢‘ ٣)</ref>
” اور دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور کیا اس کو ہدایت بنی اسرائیل کے واسطے کہ نہ ٹھہراؤ میرے سوا کسی کو کارساز تم جو اولاد ہو ان لوگوں کی جن کو چڑھایا ہم نے نوح کے ساتھ بیشک وہ تھا بندہ حق ماننے والا۔ “
{ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَـلَا تَکُنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَآئِہٖ وَ جَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَ جَعَلْنَا مِنْھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ یَفْصِلُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ } <ref>(سجدہ : ٣٢/٢٣ تا ٢٥)</ref>
سطر 458:
سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون دہری (ناستک) تھا اور کتب تفسیر و تاریخ میں جو مصر قدیم کے تاریخی حوالجات نقل کئے گئے ہیں ان سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ مصری دیوتاؤں کے پرستار تھے اور ان کا سب سے بڑا دیوتا آمن راع (سورج دیوتا) تھا اور وہ خدائے واحد کے کسی معنی میں بھی قائل نہ تھے بلکہ تمام کائنات کی تخلیق اور ان کے ہر قسم کے معاملات و حادثات کا تعلق کواکب و سیارات اور ان دیوتاؤں ہی سے متعلق سمجھتے تھے اور غالباً فرعون اور اس کی قوم کا عقیدہ ہندوستان کے ” جین مت “ کے قریب قریب تھا کیونکہ جینی بھی خدا کے منکر مگر دیوتاؤں کے پرستار ہیں۔
</big>
== ہامان؟ ==
 
== ہامان؟ ==
<big>ہامان کے متعلق قرآن عزیز نے کوئی تصریح نہیں کی کہ یہ کسی شخصیت کا نام ہے یا عہدہ اور منصب کا ‘ اور اس کا منصب و عہدہ فرعون کے دربار میں کیا تھا اور نہ ان اس نے اس پر روشنی ڈالی کہ ہامان نے عمارت تیار کرائی یا نہیں اور فرعون نے پھر اس پر چڑھ کر کیا کیا ؟ کیونکہ یہ اس کے مقصد کیلئے غیر ضروری تھا توراۃ نے بھی اس کے متعلق کوئی اشارہ نہیں کیا بلکہ اس نے فرعون کے عمارت بنانے کے حکم کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا البتہ مفسرین نے یہ قصہ ضرور نقل کیا ہے کہ جب ہامان نے ایک بہت اونچا مینارہ تیار کرا کے فرعون کو اطلاع دی تو فرعون اس پر چڑھا اور تیر کمان ہاتھ میں لے کر آسمان کی طرف تیر پھینکا ‘ قدرت الٰہی کے فیصلہ کے مطابق وہ تیر خون آلود ہو کر واپس ہوا فرعون نے یہ دیکھ کر غرور اور شیخی کے ساتھ مصریوں سے کہا کہ لو اب میں نے موسیٰ کے خدا کا بھی قصہ تمام کردیا۔ واللّٰہ اعلم
فرعون نے درباریوں ‘ عام قبطیوں اور ہامان پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اپنی شکست کو چھپانے کیلئے اگرچہ مسطورہ بالا طریقہ اختیار کیا مگر وہ خود بھی سمجھتا تھا کہ یہ ایک دھوکا ہے اور بس ‘ اس سے دلوں کی تسلی نہیں ہوسکتی اور بہت ممکن ہے کہ بہت سے مصری بھی اس کو سمجھتے ہوں تاہم درباریوں اور خواص و عوام میں ایک بھی ایسا رجل رشید نہ تھا جو جرأت و حق گوئی کے ساتھ اس حقیقت کا اعلان کردیتا اور رشد و ہدایت کی قبولیت کا دروازہ وا کرتا۔</big>
سطر 757:
اور (پھر دیکھو) ہم نے موسیٰ پر وحی بھیجی تھی کہ (اب) میرے بندوں کو راتوں رات (مصر سے) نکال لے جا پھر سمندر میں ان کے گزرنے کیلئے خشکی کی راہ نکال لے تجھے نہ تو تعاقب کرنے والوں سے اندیشہ ہوگا نہ اور کسی طرح کا خطرہ پھر (جب موسیٰ اپنی قوم کو لے کر نکل گیا تو) فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھا کیا پس (پانی کا ریلا) جیسا کچھ ان پر چھانے والا تھا چھا گیا (یعنی جو کچھ ان پر گزرنی تھی گزر گئی) اور فرعون نے اپنی قوم پر راہ (نجات) گم کردی اور انھیں سیدھی راہ نہیں دکھائی۔ “
{ وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبٰدِیْ اِنَّکُمْ مُتَّبَعُوْنَ فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِیْنَ اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ لَشِرْذِمَۃٌ قَلِیْلُوْنَ وَاِنَّہُمْ لَنَا لَغَائِظُوْنَ وَاِنَّا لَجَمِیْعٌ حَاذِرُوْنَ فَاَخْرَجْنٰـہُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ وَّکُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ کَذٰلِکَ وَاَوْرَثْنَاہَا بَنِیْ اِسْرَآئِیلَ فَاَتْبَعُوْہُمْ مُّشْرِقِیْنَ فَلَمَّا تَرَآئَ الْجَمْعَانِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰی اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ قَالَ کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ فَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَ وَاَنْجَیْنَا مُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ اَجْمَعِیْنَ ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً وَّمَا کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِیْنَ وَاِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ } <ref>(الشعراء : ٢٦/ ٥٢ تا ٦٨)</ref>
اور حکم بھیجا ہم نے موسیٰ کو کہ رات کو لے نکل میرے بندوں کو البتہ تمہارا پیچھا کریں گے پھر بھیجے فرعون نے شہروں میں نقیب ‘ یہ لوگ جو ہیں سو ایک جماعت ہے تھوڑی سی اور وہ مقرر ہم سے دل جلے ہوئے ہیں اور ہم سارے ان سے خطرہ رکھتے ہیں پھر نکال باہر کیا ہم نے ان کو باغوں اور چشموں اور خزانوں اور مکانوں سے اسی طرح اور ہاتھ لگا دیں ہم نے یہ چیزیں بنی اسرائیل کے پھر پیچھے پڑے ان کے سورج نکلنے کے وقت پھر جب مقابل ہوئیں دونوں فوجیں ‘ کہنے لگے موسیٰ کے لوگ ہم تو پکڑے گئے کہا ہرگز نہیں میرے ساتھ ہے میرا رب وہ مجھ کو راہ بتائے گا پھر حکم بھیجا ہم نے موسیٰ کو کہ مار اپنے عصا سے دریا کو پھر دریا پھٹ گیا تو ہوگئی ہر ایک پھاٹک جیسے بڑا پہاڑ اور پاس پہنچا دیا ہم نے اسی جگہ دوسروں کو اور بچا دیا ہم نے موسیٰ کو اور جو لوگ تھے اس کے ساتھ سب کو ‘ پھر ڈبا دیا ہم نے ان دوسروں کو اس چیز میں ایک نشانی ہے اور نہیں تھے بہت لوگ ان میں ماننے والے اور تیرا رب وہی ہے زبردست رحم والا۔ “
{ فَانْتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاَغْرَقْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ بِمَا صَبَرُوْا وَ دَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُہٗ وَ مَا کَانُوْا یَعْرِشُوْنَ } <ref>(الاعراف : ٧/١٣٦‘ ١٣٧)</ref>
” بالآخر ہم نے (ان کی بدعملیوں پر) انھیں سزا دی (یعنی اس جرم کی پاداش میں) کہ ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان کی طرف سے غافل رہے انھیں سمندر میں غرق کردیا اور جس قوم کو کمزور و حقیر خیال کرتے تھے اسی کو ملک کے تمام پورب کا اور اس کے مغربی حصوں کا کہ ہماری بخشی ہوئی برکت سے مالامال ہے وارث کردیا اور اس طرح (اے پیغمبر ) تیرے پروردگار کا فرمان پسندیدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوا کہ (ہمت و ثبات کے ساتھ جمے رہے تھے اور فرعون اور اس کا گروہ (اپنی طاقت و شوکت کیلئے) جو کچھ بناتا رہا تھا اور جو کچھ (عمارتوں کی) بلندیاں اٹھائی تھیں وہ سب درہم برہم کردیں “
سطر 776:
 
<big>البتہ توراۃ نے بیان کردہ واقعات کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تفصیلات بیان کی ہیں اور بنی اسرائیل کے کوچ اور پڑاؤ کے اکثر مقامات کے نام بھی بتائے ہیں جو دنیا کے لیے نامعلوم ہیں۔
توراۃ کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور اس کی قوم پر جب خدا کی بھیجی ہوئی آفات کا سلسلہ جاری ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ارشاد کے مطابق یکے بعد دیگرے ” نشانات “ کا ظہور ہونے لگا تو اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بلا کر کہا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لے جا مگر ان کے چوپائے اور پالتو جانور یہیں چھوڑنے ہوں گے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس شرط کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ ایک جانور بھی تو روکنے کا حق نہیں رکھتا ‘ تب فرعون غضبناک ہو کر کہنے لگا کہ اب بنی اسرائیل نہ جاسکیں گے اور تو اب میرے سامنے کبھی نہ آنا ورنہ میرے ہاتھ سے مارا جائے گا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تو نے ٹھیک کہا اب میں کبھی تیرے سامنے نہ آؤں گا ‘ میرے خدا کا یہی فیصلہ ہے اور اس نے مجھ کو بتادیا ہے کہ تجھ پر اور تیری قوم پر ایسی سخت آفت آئے گی کہ تیرا اور کسی مصری کا پہلوٹھا زندہ نہیں رہے گا۔
موسیٰ (علیہ السلام) فرعون سے یہ گفتگو کر کے دربار سے باہر نکل آئے اور پھر بنی اسرائیل سے یہ فرمایا کہ خداوند خدا کا ارشاد ہے کہ فرعون کا دل سخت ہوگیا ہے وہ اب تم کو یہاں سے اس وقت تک نہ جانے دے گا جب تک مزید نشان نہ دیکھ لے کہ جس سے تمام مصریوں میں کہرام مچ جائے مگر تم کو تیار کر لینی چاہیے کہ مصر سے نکلنے کا وقت آپہنچا اور خدائے تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ بنی اسرائیل کو نکلنے سے پہلے قربانی اور عید فسح کا بھی حکم دیا اور اس کا طریقہ اور شرائط بھی بتادیں ‘ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے یہ بھی کہا کہ اپنی عورتوں سے کہو کہ وہ مصری عورتوں کے پاس جائیں اور ان سے عید کیلئے سونے اور چاندی کے زیور اور قیمتی پارچہ جات مستعار مانگ لائیں اور مصری عورتوں نے آخر ان کو زیورات دے دئیے پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک رات فرعون سے لے کر معمولی مصری کا پہلوٹھا مرگیا اور تمام گھرانوں میں کہرام مچ گیا۔ یہ دیکھ کر مصری فرعون کے پاس دوڑے آئے اور اس کو مجبور کیا کہ اسی وقت تمام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال دے تاکہ یہ نحوست یہاں سے دور ہو ہم پر یہ سب آفتیں انہی کی بدولت آتی رہتی ہیں۔
تب فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اسی وقت تم سب یہاں سے نکل جاؤ اور اپنے جانوروں ‘ مویشیوں اور سب سامان کو بھی ساتھ لے جاؤ ‘ جب بنی اسرائیل رعمسیس (جشن کے شہر) سے نکلے تو بچوں اور جانوروں کے علاوہ وہ سب چھ لاکھ تھے اور جب وہ نکلے تو مصریوں کے زیورات کو بھی واپس نہ کرسکے اور مصریوں نے بھی مطالبہ نہ کیا۔
سطر 783:
<big>بنی اسرائیل رعمسیس سے سکات اور وہاں سے ایتام اور پھر مڑ کر مجدال اور بحر احمر کے درمیان فی ہخیروت کے پاس بعل صفون کے سامنے خیمہ زن ہوچکے تھے بنی اسرائیل کے اس پورے سفر میں خدا ان کے ساتھ رہا اور وہ نورانی ستون کی تجلی کے ساتھ رات میں بھی ان کی رہنمائی کرتا اور دن میں بھی آگے آگے چلتا غرض صبح کی پوپھٹ رہی تھی کہ فرعون نے سمندر کے کنارے بنی اسرائیل کو آلیا۔ انھوں نے پیچھے پھر کر دیکھا اور فرعون کو لاؤ لشکر کے ساتھ اپنے قریب پایا تو بددل اور خائف ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جھگڑا کرنے لگے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو بہت کچھ تسلی و تشفی دی اور بتایا کہ تمہارے دشمن ہلاک ہوں گے اور تم سلامتی و عافیت کے ساتھ نجات پاؤ گے ‘ اور پھر دربار خداوندی میں مناجات کرنے لگے :
” اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ تو کیوں مجھ سے فریاد کر رہا ہے ‘ بنی اسرائیل سے کہو کہ وہ آگے بڑھیں اور تو اپنی لاٹھی اٹھاکر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل جائیں گے۔۔ پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تند پوربی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنادیا اور پانی دو حصے ہوگیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔ اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہ وبالا کردیا اور پانی پلٹ کر آیا اور اس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کردیا اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوڑا ‘ پھر بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور پانی ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ دیواروں کی طرح رہا۔۔ اور اسرائیلیوں نے وہ بڑی قدرت جو خداوند نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور وہ لوگ خداوند سے ڈرے اور خداوند پر اور اس کے بندے موسیٰ پر ایمان لائے۔ “ <ref>(خروج باب ١٤ آیات ١٥۔ ٣١)</ref>
توراۃ کی ان تفصیلات میں اگرچہ بہت زیادہ رطب و یابس اور دور از کار باتیں بھی ضمناً آگئی ہیں مگر وہ اور قرآن عزیز دونوں اس بارہ میں ہم آہنگ ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قہرمانیت کے مظالم سے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو ایک عظیم الشان نشان (معجزہ) کے ذریعہ نجات دی۔ قرآن عزیز کہتا ہے کہ یہ معجزہ اس طرح ظاہر ہوا کہ خدا کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) نے بحر قلزم پر لاٹھی ماری اور سمندر کا پانی بیچ میں خشکی دے کر دونوں جانب پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا :
{ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ } <ref>(الشعراء : ٢٦/٦٣)</ref>
” پس (سمندر) پھٹ گیا پھر ہر ایک جانب ایک بڑے پہاڑ کی مانند ہوگئی۔ “
سطر 860:
عبدالوہاب نجار نے قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ پانی کے وہ چشمے جن کا ذکر بنی اسرائیل کے واقعات میں آیا ہے بحر احمر کے مشرقی بیابان میں سوئز سے زیادہ دور نہیں ہیں اور اب بھی ” عیون موسیٰ “ (موسیٰ کے چشمے) کے نام سے مشہور ہیں ‘ ان چشموں کا پانی اب بہت کچھ سوکھ گیا ہے اور بعض کے تو آثار بھی قریب قریب معدوم ہوگئے ہیں اور کہیں کہیں ان چشموں پر اب کھجور کے باغات نظر آتے ہیں۔
قرآنِ عزیز کے ذکر کردہ واقعات سے کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عصا مار کر پانی کے حاصل کرنے کا واقعہ صرف ایک ہی مرتبہ پیش نہیں آیا بلکہ تیہ کے میدان میں مختلف مقامات پر متعدد مرتبہ پیش آیا ہے۔ بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے طفیل بنی اسرائیل پر خدا تعالیٰ کے احسانات کی مسلسل بارش ہوتی رہی اور سیکڑوں برس کی غلامی سے ان کے عزائم کی پستی ‘ اخلاقی کمزوری اور ہمت و شجاعت کے فقدان نے ان پر جو ایک مستقل مایوسی اور نا امیدی طاری کردی تھی ان خدائی نشانات نے بڑی حد تک ان کی ڈھارس بندھائے رکھی مگر عجیب الفطرت قوم پر اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور انھوں نے اپنی بوالعجبی کا ایک نیا مظاہرہ پیش کردیا ایک دن سب جمع ہو کر کہنے لگے موسیٰ ہم روز روز ایک غذا کھاتے رہنے سے گھبرا گئے ہیں ‘ ہم کو اس من وسلویٰ کی ضرورت نہیں ہے ‘ اپنے خدا سے دعا کر کہ وہ ہمارے لیے زمین سے باقلا ‘ کھیرا ‘ ککڑی ‘ مسور ‘ لہسن ‘ پیاز جیسی چیزیں اگائے تاکہ ہم خوب کھائیں۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا ‘ اور فرمانے لگے : تم بھی کس قدر احمق ہو کہ ایک عمدہ اور بہترین غذا کو چھوڑ کر معمولی اور گھٹیا قسم کی چیزوں کے طلبگار بنے ہو اور اس طرح خدا کی نعمتوں کی ناسپاسی اور اس کے احسانات کی ناشکری کر کے کفران نعمت کرتے ہو ؟ پس اگر واقعی تم کو یہ نعمتیں نہیں بھاتیں اور جن چیزوں کا تم نام لے رہے ہو ان ہی کے لیے اصرار کرتے ہو تو درگاہ الٰہی سے ان کو نشانات کی طرح طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے جاؤ کسی بستی اور شہر میں چلے جاؤ وہاں ہر جگہ تم کو یہ چیزیں وافر مل جائیں گی۔
{ وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ مِنْم بَقْلِھَا وَ قِثَّآئِھَا وَ فُوْمِھَا وَ عَدَسِھَا وَ بَصَلِھَا قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ } <ref>(البقرۃ : ٢/٦١)</ref>
” اور جب تم نے کہا موسیٰ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے پس اپنے پروردگار سے ہمارے لیے دعا کر کہ وہ زمین سے ہمارے لیے باقلا ‘ ککڑی ‘ لہسن ‘ مسور اور پیاز جیسی چیزیں اگائے ‘ موسیٰ نے کہا کیا تم بہتر اور عمدہ چیز کے بدلے میں گھٹیا چیز کے خواہش مند ہو ‘ کسی شہر میں جا قیام کرو ‘ بلاشبہ وہاں یہ سب کچھ مل جائے گا جس کے تم طلب گار ہو۔ “</big>
سطر 870:
{ وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً } <ref>(سورہ الاعراف : ٧/١٤٢)</ref>
اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا تھا پھر دس راتیں بڑھا کر اسے پورا (چلہ) کردیا ‘ اس طرح پروردگار کے حضور آنے کی مقررہ میعاد چالیس راتوں کی پوری میعاد ہوگئی۔ “
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب طور پر چلہ کشی کیلئے تشریف لے گئے تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا جانشین بنا گئے کہ وہ بنی اسرائیل کو راہ حق پر قائم رکھیں اور ہر معاملہ میں ان کی نگرانی کریں :
{ وَ قَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ } <ref>(سورہ الاعراف : ٧/١٤٢)</ref>
اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا تو میرے پیچھے میری قوم میں میرا نائب رہنا اور ان کی اصلاح کا خیال رکھنا اور مفسدوں کی راہ پر نہ چلنا۔ “</big>
سطر 992:
<big>جب بنی اسرائیل کا یہ جرم معاف کردیا گیا تو اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ میرے پاس جو یہ ” الواح “ (تختیاں) ہیں ‘ یہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت اور دینی دنیوی و زندگی کی فلاح کے لیے مجھ کو عطا فرمائی ہے یہ توراۃ ہے اب تمہارا فرض ہے کہ اس پر ایمان لاؤ اور اس کے احکام کی تعمیل کرو۔
بنی اسرائیل بہرحال بنی اسرائیل تھے کہنے لگے : موسیٰ ہم کیسے یقین کریں کہ یہ خدا کی کتاب ہے ؟ صرف تیرے کہنے سے تو ہم نہیں مانیں گے ہم تو جب اس پر ایمان لائیں گے کہ خدا کو بےحجاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور وہ ہم سے یہ کہے کہ یہ توراۃ میری کتاب ہے تم اس پر ایمان لاؤ۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو سمجھایا کہ یہ بےوقوفی کا سوال ہے ان آنکھوں سے خدا کو کس نے دیکھا ہے جو تم دیکھو گے ‘ یہ نہیں ہوسکتا ‘ مگر بنی اسرائیل کا اصرار بدستور قائم رہا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا تو کچھ سوچ کر ارشاد فرمایا کہ یہ تو ناممکن ہے کہ تم لاکھوں کی تعداد میں میرے ساتھ حورب (طور) پر اس کی تصدیق کے لیے جاؤ مناسب یہ ہے کہ تم میں سے چند سردار چن کر ساتھ لیے جاتا ہوں وہ اگر واپس آ کر تصدیق کردیں تو پھر تم بھی تسلیم کرلینا ‘ اور چونکہ تم ابھی گوسالہ پرستی کر کے ایک بہت بڑا گناہ کرچکے ہو اس لیے اظہار ندامت اور خدا سے آئندہ نیکی کے عہد کیلئے بھی یہ موقع مناسب ہے۔ قوم اس پر راضی ہوگئی۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تمام اسباط سے ستر سرداروں کو چن کر ساتھ لیا اور طور پر جا پہنچے ‘ طور پر ایک سپید بادل کی طرح ” نور “ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو گھیر لیا اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی شروع ہوگئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ تو بنی اسرائیل کے حالات کا دانا و بینا ہے ‘ میں ان کی ضد پر ستر آدمی انتخاب کر لایا ہوں ‘ کیا اچھا ہو کہ وہ بھی اس ” حجاب نور “ سے میری اور تیری ہم کلامی کو سن لیں اور قوم کے پاس جا کر تصدیق کرنے کے قابل ہوجائیں ؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا منظور فرما لی اور ان کو ” حجاب نور “ میں لے لیا گیا اور انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ رب العالمین کی ہم کلامی کو سنا ‘ پھر جب پر دہ نور ہٹ گیا ‘ اور حضرت موسیٰ اور ان سرداروں کے درمیان مواجہہ ہوا تو سرداروں نے وہی اپنا پہلا اصرار قائم رکھا کہ جب تک بےحجاب خدا کو نہ دیکھ لیں ہم ایمان لانے والے نہیں ‘ اس احمقانہ اصرار اور ضد پر غیرت الٰہی نے ان کو یہ سزا دی کہ ایک ہیبت ناک چمک ‘ کڑک اور زلزلہ نے ان کو آلیا اور جلا کر خاک کردیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا تو درگاہ الٰہی میں عاجزی کے ساتھ دعا مانگی الٰہی یہ بیوقوف اگر بےوقوفی کر بیٹھے تو کیا تو ہم سب کو ہلاک کر دے گا اے خدا اپنی رحمت سے تو ان کو معاف کر دے حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کو سنا اور ان سب کو دوبارہ حیات تازہ بخشی اور پھر جب وہ زندگی کا لباس پہن رہے تھے تو ایک دوسرے کی تازہ زندگی کو آنکھوں سے دیکھ رہے تھے :
{ وَ اخْتَارَ مُوْسٰی قَوْمَہٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَا فَلَمَّآ اَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَھْلَکْتَھُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِیَّایَ اَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَھَآئُ مِنَّا اِنْ ھِیَ اِلَّا فِتْنَتُکَ تُضِلُّ بِھَا مَنْ تَشَآئُ وَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآئُ اَنْتَ وَ لِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ وَ اکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآ اِلَیْکَ قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ } <ref>(سورہ الاعراف : ٧/١٥٥ تا ١٥٧)</ref>
” اور اس غرض سے کہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت میں حاضر ہوں موسیٰ نے اپنی قوم میں سے ستر آدمی چنے پھر جب لرزا دینے والی ہول ناکی نے انھیں آلیا تو موسیٰ نے (ہماری جناب میں) عرض کیا ” پروردگار اگر تو چاہتا تو ان سب کو اب سے پہلے ہی ہلاک کر ڈالتا اور خود میری زندگی بھی ختم کردیتا (مگر تو نے اپنے فضل و رحمت سے ہمیں مہلت دی) پھر کیا ایک ایسی بات کے لیے جو ہم میں سے چند بیوقوف آدمی کر بیٹھے ہیں تو ہم سب کو ہلاک کر دے گا ؟ یہ اس کے سوا کیا ہے کہ تیری طرف سے ایک آزمائش ہے تو جسے چاہے اس میں بھٹکا دے جسے چاہے راہ دکھادے ‘ خدایا تو ہمارا والی ہے ‘ ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر ‘ تجھ سے بہتر بخشنے والا کوئی نہیں اور (خدایا) اس دنیا کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی لکھ دے ‘ اور آخرت کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی کر ‘ ہم تیری طرف لوٹ آئے “ خدا نے فرمایا ” میرے عذاب کا حال یہ ہے کہ جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں اور رحمت کا حال یہ ہے کہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے پس میں ان کے لیے رحمت لکھ دوں گا جو برائیوں سے بچیں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور ان کیلئے جو میری نشانیوں پر ایمان لائیں گے جو ” الرسول “ کی پیروی کریں گے کہ نبی امی ہوگا اور اس کے ظہور کی خبر اپنے یہاں توراۃ اور انجیل میں لکھی پائیں گے وہ انھیں نیکی کا حکم دے گا برائی سے روکے گا پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا ‘ گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوں گے اور ان پھندوں سے نکالے گا جن میں گرفتار ہوں گے تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کے مخالفوں کیلئے روک ہوئے (راہ حق میں) اس کی مدد کی اور اس روشنی کے پیچھے ہو لیے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو وہی ہیں جو کامیابی پانے والے ہیں۔ “