"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی کے لیے
درستی کے لیے
سطر 366:
 
<big>{ وَ مَا کُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَآ اِلٰی مُوْسَی الْاَمْرَ وَ مَا کُنْتَ مِنَ الشّٰھِدِیْنَ وَ لٰکِنَّآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْھِمُ الْعُمُرُ وَمَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِیْٓ اَھْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَا وَ لٰکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ وَ مَا کُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَ لٰکِنْ رَّحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰھُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ }
<ref>(القصص : ٢٨/٤٤ تا ٤٦)</ref>
” اور تو نہ تھا غرب کی طرف جب ہم نے بھیجا موسیٰ کو حکم اور نہ تھا تو دیکھنے والا لیکن ہم نے پیدا کیں کئی جماعتیں پھر دراز ہوئی ان پر مدت اور تو نہ رہتا تھا مدین والوں میں کہ ان کو سناتا ہماری آیتیں ‘ پر ہم رہے رسول بھیجتے اور تو نہ تھا طور کے کنارے جب ہم نے آواز دی ‘ لیکن یہ انعام ہے تیرے رب کا کہ تو ڈر سنا دے ان لوگوں کو جن کے پاس نہیں آیا کوئی ڈر سنانے والا تجھ سے پہلے تاکہ وہ یاد رکھیں۔ “
{ ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی اِذْ نَادَاہُ رَبُّہٗ بِالْوَادِی الْمُقَدَّسِ طُوًی اذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰی اَنْ تَزَکّٰی وَاَہْدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی } <ref>(النازعات : ٧٩/١٥ تا ١٩)</ref>
سطر 937:
” موسیٰ نے کہا ” پس اے سامری تیر ایہ کیا معاملہ ہے ؟ “ سامری نے کہا ” میں نے اس چیز کو دیکھا جس چیز کو انھوں نے نہیں دیکھا پس میں نے ” رسول “ کے نشان سے ایک مٹھی بھر لی پھر اس کو ڈال دیا اور میرے جی نے یہی سجھا دیا۔ “
دراصل اس آیت میں چند باتیں زیر بحث ہیں اور ان ہی کے فیصلہ پر کل واقعہ کی تفسیر کا مدار ہے :
سامری نے وہ کیا شے دیکھی جو دوسروں نے یعنی بنی اسرائیل نے نہیں دیکھی ؟
قَـبَضْتُ قَبْضَہً سے کیا مراد ہے ؟
" اَثَرْ الرَّسُوْلِ میں ” رسول “ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں یا جبرائیل فرشتہ ؟
نَـبَذْتُھَا سے کیا مراد ہے ؟
واقعہ کی گزشتہ تفصیلات سے اگرچہ جمہور کی رائے معلوم ہوچکی ہے تاہم مختصر طور پر اس کو حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی کی زبانی پھر سن لیجئے :
” جس وقت بنی اسرائیل پھٹے دریا میں پیٹھے (گھسے) پیچھے فرعون ساتھ فوج کے پیٹھا (داخل ہوا) جبرائیل بیچ میں ہوگئے کہ ان کو ان تک نہ ملنے دیں ‘ سامری نے پہچانا کہ یہ جبرائیل ہیں ان کے پاؤں کے نیچے سے مٹھی بھر مٹی اٹھالی وہی اب سونے کے بچھڑے میں ڈال دی ‘ سونا تھا کافروں کا مال لیا ہوا فریب سے ‘ اس میں مٹی پڑی برکت کی ‘ حق اور باطل مل کر ایک ” کرشمہ “ پیدا ہوا کہ رونق جاندار کی اور آواز اس میں ہوگئی ایسی چیزوں سے بہت بچنا چاہیے اسی سے بت پرستی بڑھتی ہے۔ “ <ref>(موضح القرآن ‘ سورة طٰہ)</ref>
سطر 975:
” سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سامری کون تھا ؟ یہ اس کا نام تھا یا قومیت کا لقب ؟
قیاس کہتا ہے کہ یہاں سامری سے مقصود سمیری قوم کا فرد ہے کیونکہ جس قوم کو ہم نے سمیری کے نام سے پکارنا شروع کردیا ہے عربی میں اس کا نام قدیم سے سامری آ رہا ہے اور اب بھی عراق میں ان کا بقایا اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہاں قرآن کا ” السامری “ کہہ کے اسے پکارنا صاف کہہ رہا ہے کہ یہ نام نہیں ہے اس کی قومیت کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ شخص اسرائیلی نہ تھا سامری تھا۔
حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً ساڑھے تین ہزار برس پہلے دجلہ و فرات کے دو آبے میں دو مختلف قومیں آباد ہو رہی تھیں اور ایک عظیم الشان تمدن کی بنیادیں اٹھا رہی تھیں ‘ ان میں سے ایک قوم جو جنوب سے آئی تھی ‘ عرب تھی ‘ دوسری جس کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ شمال سے اتری سمیری تھی اسی قوم کے نام سے تاریخ قدیم کا شہر ” سامرہ “ اور ” ار “ آباد ہوا تھا جس کا محل اب ” تل العبید “ میں دریافت ہوا ہے اور وہاں سے پانچ ہزار برس پیشتر کے بنے ہوئے زیور اور سنہری ظروف برآمد ہوئے ہیں۔
سمیری قوم کی اصل کیا تھی ؟ اس بارے میں اس وقت تک کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکی ہے لیکن نینوا میں اشوری پال (متوفی ٦٢٦ قبل مسیح) کا جو کتب خانہ نکلا ہے اس میں تختیوں کا ایک مجموعہ لغت کی کتاب کا بھی ہے جس میں اکادی اور سمیری زبان کے ہم معنی الفاظ جمع کئے گئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سمیری زبان کے اصوات سامی حروف کے اصوات سے چنداں مختلف نہیں تھے بہت ممکن ہے کہ وہ بھی دراصل ان ہی قبائل کے مجموعہ سے کوئی بعیدی تعلق رکھتے ہوں جن کے لیے ہم نے توراۃ کی اصطلاح سامی اختیار کرلی ہے۔۔ بہرحال سمیری قبائل کا اصلی وطن عراق تھا ‘ مگر یہ دور دور تک پھل گئے تھے۔ مصر سے ان کے تعلقات کا سراغ ایک ہزار سال قبل مسیح تک روشنی میں آچکا ہے پس معلوم ہوتا ہے اسی قوم کا ایک فرد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی معتقد ہوگیا اور جب بنی اسرائیل نکلے تو یہ بھی ان کے ساتھ نکل آیا اسی کو قرآن نے ” السامری “ کے لفظ سے یاد کیا ہے گائے ‘ بیل اور بچھڑے کی تقدیس کا خیال سمیریوں میں بھی تھا اور مصریوں میں بھی مصری اپنے دیوتا حورس کا چہرہ گائے کی شکل کا بناتے تھے۔ الخ۔ “ (ترجمان القرآن جلد ٢ ص ٤٦٤‘ ٤٦٥)
ان ہر دو بیانات کے مطالعہ کے بعد یہ بآسانی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا آزاد کی تشریح نجار کی تشریح کے مقابلہ میں زیادہ قرین صواب اور راجح ہے اور نجار کی تشریح ” تاویل بعید “ کی حیثیت رکھتی ہے سامر کے معنی اگر نگہبان کے آتے ہیں تو اس کا نام بھی سامری کیوں ہوا ؟ اس کا جواب اس تاویل میں نہیں ملتا اور عیسائیوں کے سوال کا جواب جس تاریخی تحقیق کے ساتھ آزاد صاحب کے مضمون میں ملتا ہے وہی صحیح ہے۔
سطر 984:
اس واقعہ کے متعلق قرآن عزیز اور توراۃ میں بہت سا اختلاف ہے توراۃ کا بیان ہے کہ گوسالہ ہارون (علیہ السلام) نے بنایا تھا :
” اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر اس سے کہنے لگے کہ اٹھ ہمارے لیے دیوتا بنا دے جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کو جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لایا ‘ کیا ہوگیا ‘ ہارون نے ان سے کہا تمہاری بیویوں اور لڑکوں لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کر میرے پاس لے آؤ ‘ چنانچہ سب لوگ ان کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کر ان کو ہارون کے پاس لے آئے اور اس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی تب وہ کہنے لگے اے بنی اسرائیل یہی وہ تیرا دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا ‘ یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اس نے اعلان کردیا کہ کل خداوند کے لیے عید رہے۔ “ <ref>(خروج باب ٣٢ آیات ١۔ ٥)</ref>
توراۃ کی تحریف و مسخ کی شہادت اس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ جو کتاب اسی باب خروج میں ہارون (علیہ السلام) کو خدا کا پیغمبر اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وزیر ظاہر کرتی ہے وہی توراۃ اس جگہ ہارون (علیہ السلام) کو عیاذاً باللّٰہ نہ صرف مشرک اور بت پرست ثابت کر رہی ہے بلکہ شرک کا معلم اور بت پرستی کا راہنما بتارہی ہے۔
توراۃ کے مطالعہ سے بآسانی آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اہل کتاب کی بوالعجبیوں اور کتاب اللہ میں تحریفات کی داستانوں میں سب سے زیادہ قابل نفرت داستان یہ ہے کہ وہ خدا کے جن برگزیدہ انسانوں کو نبی اور پیغمبر کہتے ہیں ‘ ان ہی پر شرک و کفر اور بداخلاقیوں کی تہمت لگانے میں بھی نہیں جھجکتے چنانچہ اس مقام پر بھی سامری کے مشرکانہ عمل کو حضرت ہارون (علیہ السلام) کے سر لگا دیا قرآن عزیز اس خرافات کی پر زور تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا دامن اس قسم کی ناپاکی سے قطعاً پاک ہے گوسالہ بنانا اور گوسالہ پرستی کی ترغیب دینا سامری کا کام تھا نہ کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) جیسے برگزیدہ نبی کا۔ انھوں نے سختی کے ساتھ بنی اسرائیل کو اس ناپاک حرکت سے باز رکھنے کی سعی کی مگر وہ بدبخت کسی طرح نہ مانے :
{ وَ لَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَ اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَ اَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی } <ref>(سورہ طٰہ : ٢٠/٩٠‘ ٩١)</ref>
” اور بیشک ہارون نے پہلے ہی ان (بنی اسرائیل) سے کہا ” اے قوم بلاشبہ تم فتنہ میں ڈال دئیے گئے (اس بچھڑے کے بنانے سے) اور بیشک تمہارا پروردگار بڑا رحم والا ہے پس (اب بھی سمجھو اور) میری پیروی کرو اور میرے حکم کو مانو “ انھوں نے (بنی اسرائیل نے ) کہا ہم اس کی سمادھ ہرگز نہ چھوڑیں گے تا آنکہ موسیٰ لوٹ کر ہمارے پاس نہ آجائے۔ “</big>
سطر 1,057:
” (موسیٰ نے) کہا اے پروردگار میں اپنے اور اپنے بھائی کے ماسوا کسی کا مالک نہیں ہوں ‘ لہٰذا تو ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان تفریق کر دے (اللہ تعالیٰ نے) کہا بلاشبہ ان پر ارض مقدس کا داخلہ چالیس سال تک حرام کردیا گیا ‘ اس مدت میں یہ اسی میدان میں بھٹکتے پھریں گے پس تو نافرمان قوم پر غم نہ کھا اور افسوس نہ کر۔ “
وادی سینا کو ” تیہ “ اس لیے کہتے ہیں کہ قرآن عزیز نے بنی اسرائیل کیلئے کہا ہے : یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ <ref>(مائدہ ٥/٢٦)</ref> ” یہ اس زمین میں بھٹکتے پھریں گے “ جب کوئی شخص راہ سے بھٹک جائے تو عربی میں کہتے ہیں تَاہَ فُـلَانٌ۔
توراۃ میں اس واقعہ کی تفصیلات اگرچہ اس انداز میں مذکور نہیں ہیں تاہم ” گنتی باب ١٤“ میں بنی اسرائیل کے ارض مقدس میں داخلہ سے انکار اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ناراضی اور پھر چالیس سال تک ان پر ارض مقدس کے داخلہ کا حرام ہوجانا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس مدت کے اندر اندر بنی اسرائیل کے وہ تمام افراد مرجائیں گے جنہوں نے خدا کے حکم کے خلاف ارض مقدس کے داخلہ سے انکار کیا ہے اور ان کے بعد نئی نسل کو داخلہ کی اجازت ہوگی جو کالب اور یوشع کی سرکردگی میں دشمنوں کو پامال کر کے پاک زمین میں داخل ہوں گے نیز یہ کہ حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ (علیہا السلام) کا بھی اس وقت انتقال ہوچکا ہو گا :
” پھر خداوند نے موسیٰ اور ہارون کو خطاب کر کے فرمایا : میں کب تک اس خبیث گروہ کے مقابل جو میری شکایت کرتا ہے صبر کروں ؟ بنی اسرائیل جو میرے برخلاف شکایتیں کرتے ہیں میں نے ان کی شکایتیں سنیں ‘ ان سے کہہ ‘ خداوند کہتا ہے ‘ مجھے اپنی حیات کی قسم جیسا تم نے مجھے سنا کے کہا ہے میں تم سے ویسا ہی کروں گا ‘ تمہاری لاشیں اور ان سب کی جو تم میں شمار کئے گئے ان کے کل جمع کے مطابق بیس برس والے سے لے کر اوپر والے تک جنہوں نے میری شکایتیں کیں اس بیابان میں گریں گی ‘ تم بیشک اس زمین تک نہ پہنچو گے جس کی بابت میں نے قسم کھائی ہے کہ تمہیں وہاں بساؤں گا ‘ سوا یوفنہ کے بیٹے کالب اور نون کے بیٹے یشوع اور تمہارے لڑکوں کو جن کے حق میں تم کہتے ہو کہ وہ لوٹ جائیں گے میں ان کو داخل کروں گا ‘ اس زمین کی قدر کو جسے تم نے ذلیل جانا وہ پہچانیں گے ‘ پر تم جو ہو تمہاری لاشیں اس بیابان ہی میں گریں گی اور تمہارے لڑکے اس دشت میں چالیس برس تک بھٹکتے پھریں گے اور تمہاری برگشتگی کے اٹھانے والے ہوں گے جب تک کہ تمہاری لاشیں اس دشت میں نیست و نابود نہ ہوں ‘ ان دنوں کے شمار کے مطابق جن میں تم اس زمین کی جاسوسی کرتے تھے ‘ جو چالیس دن ہیں دن پیچھے ایک سال ہوگا سو تم چالیس برس تک اپنے گناہ کو اٹھائے رہو گے ‘ تب تم میری عہد شکنی کو جان لو گے۔ “ <ref>(گنتی باب ١٤ آیات ٢٦۔ ٣٥)</ref>
اس جگہ یہ شبہ پیدا نہ کرنا چاہیے کہ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہا السلام) کو بھی اسی میدان میں رہنا پڑا اور وہ بھی ارض مقدس میں داخل نہ ہو سکے ‘ اس لیے کہ جب بنی اسرائیل کے اس پورے قافلہ پر ارض مقدس کو حرام کردیا گیا تو اب ضروری تھا کہ ان کی رشد و ہدایت کیلئے خدا کا پیغمبر ان میں موجود رہے تاکہ کچھ یہ بوڑھے بھی راہ حق پر قائم رہیں اور نئی نسل میں وہ استعداد پیدا ہو جس کے ذریعہ وہ ارض مقدس میں داخل ہو کر خدا کے حکم کو پورا کریں۔
سطر 1,074:
قرآن عزیز نے ہم کو اس واقعہ کے متعلق صرف اسی قدر بتایا ہے اور اس سے زیادہ کوئی تفصیل نہیں دی :
{ وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ھِیَ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِکْرٌ عَوَانٌم بَیْنَ ذٰلِکَ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُھَا قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ صَفْرَآئُ فَاقِعٌ لَّوْنُھَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ھِیَ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیْنَا وَ اِنَّآ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ لَمُھْتَدُوْنَ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیْھَا قَالُوا الْئٰنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوْھَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَئْتُمْ فِیْھَا وَ اللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی وَ یُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ } <ref>(البقرۃ : ٢/٦٧ تا ٧٣)</ref>
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ” بلاشبہ تم کو خدا یہ حکم دیتا ہے کہ تم گائے ذبح کرو “ وہ کہنے لگے ” کیا تو ہمارے ساتھ مذاق کرتا ہے “ موسیٰ نے کہا ” میں اللہ سے پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ جاہلوں میں شمار ہوں “ (یعنی یہ مذاق نہیں ہے) انھوں نے کہا ” تو اپنے پروردگار سے یہ دریافت کر کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ “ موسیٰ نے کہا : اللہ تعالیٰ کہتا ہے ” وہ ایسی گائے ہو کہ نہ تو بڑھیا ہو اور نہ بچھیا بلکہ درمیانی عمر کی جوان ہو ‘ پس اب جو تم سے کہا گیا ہے اس کی تعمیل کرو “ وہ کہنے لگے ” اپنے خدا سے پوچھ کہ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ “ موسیٰ نے کہا اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ” وہ گہرے زرد رنگ کی ہو کہ دیکھنے والوں کو خوش رنگ معلوم ہو “ کہنے لگے ” ہم پر (ابھی تک) گائے کی کیفیت مشتبہ ہے اگر خدا کو منظور ہے تو ہم کامیاب ہوجائیں گے۔ “ موسیٰ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ” وہ ایسی گائے ہو کہ نہ محنت ماری ہو کہ زمین میں ہل چلاتی ہو اور نہ کھیت کو سیراب کرتی ہو۔ وہ بےداغ ہو جس پر کسی قسم کا دھبہ نہ ہو “ کہنے لگے ” اب تو صحیح بات لایا “ پس انھوں نے اس کو حاصل کر کے ذبح کیا ‘ اور قریب تھا کہ نہ کرتے اور یہ جب ہوا کہ تم نے ایک جان کو قتل کردیا پھر آپس میں اختلاف کرنے لگے اور اللہ ظاہر کرنے والا ہے اس بات کو جس کو تم چھپاتے ہو ‘ پس ہم نے کہا : ” اس مقتول کو گائے کے بعض حصے کے ساتھ مس کرو (مارو) اللہ تعالیٰ اسی طرح مردوں کو زندہ کردیتا ہے ‘ اور تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو۔ “
صحیح حدیث میں ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے فرماتے ہی ” ذبح بقرہ “ کی تعمیل کردیتے تو ان کیلئے گائے کے معاملہ میں کسی قسم کی مطلق قید و بند نہ ہوتی اور وہ کوئی سی گائے بھی ذبح کردیتے تو تعمیل پوری ہوجاتی۔ مگر انھوں نے بےہودہ سوالات کر کے اپنے اوپر پابندیاں لگوائیں ‘ چنانچہ پیغمبر خدا کے ساتھ اس قسم کی بےہودہ باتوں اور کج بحثیوں کی قرآن عزیز نے سخت مذمت کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس کا آخر نتیجہ کفر اور ترک ایمان پر جا کر ختم ہوتا ہے ‘ لہٰذا امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی باتوں سے بچے۔
{ اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَکُمْ کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ } <ref>(البقرۃ : ٢/١٠٨)</ref>
سطر 1,115:
قارون بن یصہر بن قاہت ١ ؎ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نسب یہ ہے : موسیٰ بن عمران بن قاہت۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی یہی منقول ہے۔
مورخین کہتے ہیں کہ قارون قیام مصر کے زمانہ میں فرعون کا درباری ملازم رہا تھا دولت کا یہ بےانتہا انبار اس نے وہیں جمع کیا تھا اور سامری منافق تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں اعتقاد نہیں رکھتا تھا۔ <ref>(البدایہ والنہایہ جلد ١ ص ٣٠٩)</ref>
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم نے ایک مرتبہ اس کو نصیحت کی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بیشمار دولت و ثروت بخشی ہے اور عزت و حشمت عطا فرمائی ہے لہٰذا اس کا شکر ادا کر اور مالی حقوق ” زکوۃ و صدقات “ دے کر غرباء فقراء اور مساکین کی مدد کر ‘ خدا کو بھول جانا اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنا اخلاق و شرافت دونوں لحاظ سے سخت ناشکری اور سرکشی ہے اس کی دی ہوئی عزت کا صلہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تو کمزوروں اور ضعیفوں کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگے اور نخوت و پندار میں غریبوں اور عزیزوں کے ساتھ نفرت سے پیش آئے۔
قارون کے جذبہ انانیت کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ نصیحت پسند نہ آئی اور اس نے مغرورانہ انداز میں کہا : موسیٰ میری دولت و ثروت تیرے خدا کی عطا کردہ نہیں ہے ‘ یہ تو میرے عقلی تجربوں اور علمی کاوشوں کا نتیجہ ہے :
{ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ } <ref>(قصص : ٢٨/٧٨)</ref>
میں تیری نصیحت مان کر اپنی دولت کو اس طرح برباد نہیں کرسکتا۔
مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) برابر اپنے فرض تبلیغ کو انجام دیتے اور قارون کو راہ ہدایت دکھاتے رہے ‘ قارون نے جب یہ دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کسی طرح پیچھا نہیں چھوڑتے تو ان کو زچ کرنے اور اپنی دولت و ثروت کے مظاہرہ سے مرعوب کرنے کے لیے ایک دن بڑے کروفر کے ساتھ نکلا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے مجمع میں پیغام الٰہی سنا رہے تھے کہ قارون ایک بڑی جماعت اور خاص شان و شوکت اور خزانوں کی نمائش کے ساتھ سامنے سے گزرا ‘ اشارہ یہ تھا کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تبلیغ کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو میں بھی ایک کثیر جتھہ رکھتا ہوں اور زر و جواہر کا بھی مالک ہوں لہٰذا ان دونوں ہتھیاروں کے ذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) کو شکست دے کر رہوں گا۔
بنی اسرائیل نے جب قارون کی اس دنیوی ثروت و عظمت کو دیکھا تو ان میں سے کچھ آدمیوں کے دلوں میں انسانی کمزوری نے یہ جذبہ پیدا کیا کہ وہ بےچین ہو کر یہ دعا کرنے لگے : ” اے کاش یہ دولت و ثروت اور عظمت و شوکت ہم کو بھی نصیب ہوتی “ مگر بنی اسرائیل کے ارباب بصیرت نے فورا مداخلت کی اور ان سے کہنے لگے خبردار اس دنیوی زیب وزینت پر نہ جانا اور اس کے لالچ میں گرفتار نہ ہو بیٹھنا تم عنقریب دیکھو گے کہ اس دولت و ثروت کا انجام بد کیا ہونے والا ہے ؟ “
آخر کار جب قارون نے کبر و نخوت کے خوب خوب مظاہرے کر لیے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل میں کافی سے زیادہ زور صرف کرلیا تو اب غیرت حق حرکت میں آئی اور پاداش عمل کے فطری قانون نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور قارون اور اس کی دولت پر خدا کا یہ اٹل فیصلہ ناطق کردیا : فَخَسَفْنَا بِہٖ وَ بِدَارِہٖ الْاَرْضَ <ref>(قصص : ٢٨/٨١)</ref> ” ہم نے قارون اور اس کے سرمایہ کدہ کو زمین کے اندر دھنسا دیا “
اور بنی اسرائیل کی آنکھوں دیکھتے نہ غرور باقی رہا اور نہ سامان غرور ‘ سب کو زمین نے نگل کر عبرت کا سامان مہیا کردیا ‘ قرآن عزیز نے متعدد مقامات پر اس واقعہ کو مفصل اور مجمل بیان کیا ہے :
{ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سَاحِرٌ کَذَّابٌ }
<ref>(المومن : ٤٠/٢٣‘ ٢٤)</ref>
سطر 1,138:
{ اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْھِمْ وَ اٰتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِمَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ وَ ابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَھْلَکَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ھُوَ اَشَدُّ مِنْہُ قُوَّۃً وَّ اَکْثَرُ جَمْعًا وَ لَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِھِمُ الْمُجْرِمُوْنَ فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِیْ زِیْنَتِہٖ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُ اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَ لَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ فَخَسَفْنَا بِہٖ وَ بِدَارِہِ الْاَرْضَ فَمَا کَانَ لَہٗ مِنْ فِئَۃٍ یَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ وَ اَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَکَانَہٗ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْکَاَنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَوْ لَآ اَنْ مَّنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا وَیْکَاَنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ } <ref>(القصص : ٢٨/٧٦ تا ٨٣)</ref>
” بیشک قارون ‘ موسیٰ کی قوم ہی میں سے تھا ‘ پس اس نے ان پر سرکشی کی اور ہم نے اس کو اس قدر خزانے دیے تھے کہ اس کی کنجیوں کے بوجھ سے طاقتور آدمی تھک جاتے تھے جب اس کی قوم نے کہا تو شیخی نہ مار ‘ اللہ شیخی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے ‘ اور جو کچھ تجھ کو خدا نے دیا ہے اس میں آخرت کو تلاش کر ‘ اس کو نہ بھول کہ دنیا میں اس نے تجھ کو کیا کچھ دے رکھا ہے اور جس طرح خدا نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے تو بھی اسی طرح بھلائی کر ‘ اور فساد کے درپے نہ ہو ‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ قارون کہنے لگا یہ مال تو مجھ کو میرے ایک ہنر سے ملا ہے جو مجھ کو آتا ہے۔ کیا وہ اس سے بیخبر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے اس سے کہیں زیادہ مال دار اور طاقتور قوموں کو ہلاک کردیا اور نہ سوال کیا جائے مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں (یعنی ان کی عقلیں ماری گئی ہیں تب ہی تو گناہ میں مبتلا ہیں پھر سوال سے کیا فائدہ) پھر نکلا ایک دن قوم کے سامنے بن سنور کر خدم و حشم کے ساتھ تو جو لوگ دنیا کے طالب تھے انھوں نے اس کو دیکھ کر کہا اے کاش ہمیں بھی یہ سب کچھ ملا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے بلاشبہ یہ بڑے نصیب والا ہے اور جن لوگوں کو اللہ نے بصیرت و علم عطا کیا تھا انھوں نے کہا تمہیں ہلاکی ہو جو اللہ پر ایمان لایا اور نیک عمل کئے اس کے لیے اللہ کا ثواب اس دولت سے بہتر ہے اور اس کو نہیں پاتے مگر صبر کرنے والے پھر ہم نے قارون اور اس کے محل کو زمین میں دھنسا دیا پس اس کے لیے کوئی جماعت مددگار ثابت نہیں ہوئی جو خدا کے عذاب سے اس کو بچائے اور وہ بےیارومددگار ہی رہ گیا اور جنہوں نے کل اس کی شان و شوکت دیکھ کر اس جیسا ہوجانے کی تمنا کی تھی وہ یہ دیکھ کر آج یہ کہنے لگے ارے خرابی یہ تو اللہ تعالیٰ کھول دیتا ہے روزی جس کی چاہے اپنے بندوں میں اور تنگ کردیتا ہے اگر احسان نہ کرتا اللہ ہم پر تو ہم کو بھی دھنسا دیتا ارے خرابی یہ منکر تو چھٹکارا نہیں پاتے ‘ یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لیے بنایا ہے جو (خدا کی) زمین میں شیخی نہیں مارتے اور نہ فساد کے خواہش مند ہوتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقیوں کیلئے ہے۔ “
توراۃ نے بھی اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ١ ؎ مگر اس کے بیان اور قرآن عزیز کی تصریحات کو پڑھنے کے بعد ایک انصاف پسند انسان کو یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ قرآن عزیز جب کسی تاریخی واقعہ کو نقل کرتا ہے تو اس کے صرف ان ہی اجزاء کو بیان کرتا ہے جو غرض اور مقصد نصیحت و عبرت کے لیے ضروری ہوں اور زائد از حاجت تفصیلات کو نظر انداز کرتا جاتا ہے لیکن توراۃ میں اکثر بےضرورت تفاصیل بیان ہوتی ہیں اور بعض جگہ تو بےمحل طوالت بلکہ تضاد بیان تک پایا جاتا ہے جن کو ہم حسب موقع بیان کرتے جاتے ہیں چنانچہ اس مقام پر بھی بعض غیر ضروری حصوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
</big>
 
سطر 1,164:
<big>گزشتہ واقعات میں یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ جب بنی اسرائیل نے ارض مقدس میں داخل ہونے سے انکار کردیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ ان کو یہ اطلاع کردی تھی کہ چالیس سال تک اب تم کو اسی سرزمین میں بھٹکنا پڑے گا اور سرزمین مقدس میں ان افراد میں سے کوئی بھی داخل نہ ہوسکے گا جنہوں نے داخل ہونے سے اس وقت انکار کردیا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا کہ موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) بھی تمہارے پاس ہی رہیں گے کیونکہ ان کی اور آنے والی نسل کی رشد و ہدایت کیلئے ان دونوں کا یہاں موجود رہنا ضروری ہے چنانچہ جب بنی اسرائیل ” تیہ “ کے میدان میں گھومتے اور پھرتے پھراتے پہاڑ کی اس چوٹی کے قریب پہنچے جو ” ہور “ کے نام سے مشہور تھی تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو پیغام اجل آپہنچا ‘ وہ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے حکم سے ” ہور “ پر چڑھ گئے اور وہیں کچھ روز عبادت الٰہی میں مصروف رہے اور جب حضرت ہارون (علیہ السلام) کا وہاں انتقال ہوگیا تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کی تجہیز و تکفین کے بعد نیچے اترے اور بنی اسرائیل کو ہارون (علیہ السلام) کی وفات سے مطلع کیا۔
توراۃ میں اس واقعہ کو اس طرح ادا کیا ہے :
” اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت قادس سے روانہ ہو کر کوہ ہور پہنچی اور خداوند نے کوہ ہور پر جو ادوم کی سرحد سے ملا ہوا تھا ‘ موسیٰ اور ہارون سے کہا ‘ ہارون اپنے لوگوں میں جا ملے گا کیونکہ وہ اس ملک میں جو میں نے بنی اسرائیل کو دیا ہے جانے نہیں پائے گا اس لیے کہ مریبہ کے چشمے پر تم نے میرے کلام کے خلاف عمل کیا ‘ لہٰذا تو ہارون اور اس کے بیٹے الیعزر کو اپنے ساتھ لے کر کوہ ہور کے اوپر آ جا اور ہارون کے لباس کو اتار کر اس کے بیٹے الیعزر کو پہنا دینا ‘ کیونکہ ہارون وہیں وفات پاکر اپنے لوگوں میں جا ملے گا اور موسیٰ نے خداوند کے حکم کے مطابق عمل کیا اور ساری جماعت کی آنکھوں کے سامنے کوہ ہور پر چڑھ گئے اور موسیٰ نے ہارون کے لباس کو اتار کر اس کے بیٹے الیعزر کو پہنا دیا اور ہارون نے وہیں پہاڑ کی چوٹی پر رحلت کی تب موسیٰ اور الیعزر پہاڑ سے اتر آئے جب جماعت نے دیکھا کہ ہارون نے وفات پائی تو اسرائیل کے سارے گھرانے کے لوگ ہارون پر تیس دن تک ماتم کرتے رہے۔ “ <ref>(گنتی باب ٢٠‘ آیات ٢٢۔ ٢٩)</ref></big>
 
سطر 1,195:
* [[محمد بن عبد اللہ|محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]]
* [[نبوت]]
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
 
== بیرونی روابط ==
{{وکی اقتباسات|موسیٰ علیہ السلام}}