"غزوہ خیبر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
درستی
سطر 23:
}}
 
'''غزوہ خیبر''' محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں تھا جہاں سے وہ دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے یہ جنگ شروع کی۔
 
== پس منظر ==
[[خیبر (ضد ابہام)|خیبر]] کا علاقہ بالخصوص اس کے کئی قلعے یہودی فوجی طاقت کے مرکز تھے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے خطرہ بنے رہے اور مسلمانوں کے خلاف کئی سازشوں میں شریک رہے۔ ان سازشوں میں [[غزوہ خندق]] اور [[غزوہ احد]] کے دوران یہودیوں کی کارروائیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ [[خیبر (ضد ابہام)|خیبر]] کے یہود نے قبیلہ بنی نظیر کو بھی پناہ دی تھی جو مسلمانوں کے ساتھ سازش اور جنگ میں ملوث رہے تھے۔ [[خیبر (ضدمدینہ منورہ سے 60میل کے فاصلے پر واقعہ یہودیوں کا بڑا شہر تھا۔ یہودی سازشیں کرتے تھے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر حملہ کر کے قلعہ ابہام)|خیبر]] فتح کر لیا۔ یہاں کی زمینوں کی پیداوار کا نصف حصہ اسلامی حکومت کے تصرف میں آیا۔

کے یہود کے تعلقات [[غزوہ بنی قریظہ|بنو قریظہ]] کے ساتھ بھی تھے جنہوں نے [[غزوہ خندق]] میں مسلمانوں سے عہد شکنی کرتے ہوئے انہیں سخت مشکل سے دوچار کر دیا تھا۔ خیبر والوں نے [[فدک]] کے یہودیوں کے علاوہ [[نجد]] کے قبیلہ بنی غطفان کے ساتھ بھی مسلمانوں کے خلاف معاہدے کیے تھے۔ محرم 7ھ (مئی 628ء) میں حضرت [[محمد صلیبن عبد اللہ علیہ و آلہ و سلم|محمد]] {{درود}} 1600 کی فوج کے ساتھ، جن میں سے ایک سو سے کچھ زائد گھڑ سوار تھے، [[خیبر (ضد ابہام)|خیبر]] کی طرف جنگ کی نیت سے روانہ ہوئے اور پانچ چھوٹے قلعے فتح کرنے کے بعد قلعہ [[خیبر (ضد ابہام)|خیبر]] کا محاصرہ کر لیا جو دشمن کا سب سے بڑا اور اہم قلعہ تھا۔ یہ قلعہ ایک نسبتاً اونچی پہاڑی پر بنا ہوا تھا اور اس کا دفاع بہت مضبوط تھا۔
 
== جنگ ==
یہودیوں نے عورتیں اور بچے ایک قلعے میں اور سامانِ خور و نوش و دیگر سازوسامان ایک اور قلعہ میں رکھ دیا اور ہر قلعہ پر تیر انداز تعینات کر دیے جو قلعہ میں داخل ہونے کی کوشش پر تیروں کی بارش کر دیتے تھے۔<ref>مغازی جلد 2 صفحہ 637</ref> مسلمانوں نے پہلے پانچ قلعوں کو ایک ایک کر کے فتح کیا جس میں پچاس مجاہدین زخمی اور ایک شہید ہوئے۔ یہودی رات کی تاریکی میں ایک سے دوسرے قلعے تک اپنا مال و اسباب اور لوگوں کو منتقل کرتے رہے۔ باقی دو قلعوں میں قلعہ قموص سب سے بنیادی اور بڑا تھا اور ایک پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔ حضور {{درود}} نے باری باری حضرت ابوبکر {{رض مذ}}، حضرت عمر {{رض مذ}} اور حضرت سعد بن عبادہ {{رض مذ}} کی قیادت میں افوج اس قلعہ کو فتح کرنے کے لیے بھیجیں مگر مسلمان کامیاب نہ ہو سکے۔<ref name="تاریخ ابنِ کثیر جلد 3">تاریخ ابنِ کثیر جلد 3</ref> پھر حضور {{درود}} نے ارشاد فرمایا کہ 'کل میں اسے علم دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ شکست کھانے والا اور بھاگنے والا نہیں ہے۔ خدا اس کے دونوں ہاتھوں سے فتح عطا کرے گا'۔ یہ سن کر اصحاب خواہش کرنے لگے کہ یہ سعادت انہیں نصیب ہو۔ اگلے دن حضور {{درود}} نے حضرت [[علی (ضدابن ابہام)ابی طالب|علی]] کرم اللہ وجہہ کو طلب کیا۔ صحابہ کرام نے بتایا کہ انہیں [[گلابی آنکھ|آشوبِ چشم]] ہے۔ لیکن جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئے تو حضور {{درود}} نے اپنا لعابِ دہن ان کی آنکھوں میں لگایا جس کے بعد تا زندگی انہیں کبھی آشوب چشم نہیں ہوا۔<ref name="تاریخ ابنِ کثیر جلد 3"/><ref>انسائکلوپیڈیا آف اسلام</ref> حضرت علی کرم اللہ وجہہ قلعہ پر حملہ کرنے کے لیے پہنچے تو یہودیوں کے مشہور پہلوان [[مرحب]] کا بھائی مسلمانوں پر حملہ آور ہوا مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسے قتل کر دیا اور اس کے ساتھی بھاگ گئے۔ اس کے بعد مرحب رجز پڑھتا ہوا میدان میں اترا۔ اس نے زرہ بکتر اور خود پہنا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ایک زبردست لڑائی کے دوران حضرت [[علی (ضدابن ابی ابہام)طالب|علی]] کرم اللہ وجہہ نے اس کے سر پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس کا خود اور سر درمیان سے دو ٹکرے ہو گیا۔ اس کی ھلاکت پر خوفزدہ ہو کر اس کے ساتھی بھاگ کر قلعہ میں پناہ گزین ہو گئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قلعہ کا دروازہ جو بیس آدمی کھولتے تھے، اکھاڑ لیا اور اسے قلعہ کے دروازہ کے سامنے والی خندق پر رکھ دیا تاکہ افوج گھڑسواروں سمیت قلعہ میں داخل ہو سکیں۔ اس فتح میں 93 یہودی ہلاک ہوئے اور قلعہ فتح ہو گیا۔<ref>المغازی واقدی جلد 2 صفحہ 700</ref>
 
== نتائج ==