"عزیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 101:
<ref>١ ؎ البدایہ والنہایہ جلد ٢ ص ٤٥۔ ٤٦</ref>
<ref>٢ ؎ البدایہ والنہایہ ص ٤٦۔</ref></big>
 
== ایک شبہ کا جواب ==
<big>قرآن عزیز کے اس اعلان پر کہ عزیر (علیہ السلام) کو یہود خدا کا بیٹا کہتے ہیں آج کے بعض یہودی عالم یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تو عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے اس لیے قرآن کا یہ دعویٰ غلط ہے مگر ان علمائے یہود کا یہ اعتراض بھی اپنے پیشرؤوں کی طرح تلبیس اور کتمان حق پر مبنی ہے ورنہ تو وہ جانتے ہیں اور ان کے علاوہ ہر وہ شخص جانتا ہے جس نے ممالک اسلامیہ کی سیروسیاحت کی اور اس کو اقوام عالم کے مذاہب کی تحقیق سے دلچسپی رہی ہو کہ آج بھی نواح فلسطین میں یہود کا وہ فرقہ موجود ہے جو عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتا ہے اور رومن کیتھولک عیسائیوں کی طرح ان کا مجسمہ بنا کر ان کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جو خدا کے ساتھ ہونا چاہیے۔
حضرت عزیر (علیہ السلام) کی زندگی مبارک
حضرت عزیر (علیہ السلام) کی حیات طیبہ سے متعلق تفصیلی حالات کا کچھ زیادہ مواد کتب سیرو تاریخ میں نہیں پایا جاتا اور مجموعہ توراۃ کے صحیفہ عزرا میں بھی خود ان کی زندگی پاک پر مفصل روشنی نہیں پڑتی اور اس کا زیادہ حصہ بنی اسرائیل کی اسارت بابل اور اس کے متعلقات پر مشتمل ہے۔ البتہ توراۃ اور وہب بن منبہ اور کعب احبار سے منقول روایات سے صرف اس قدر پتہ چلتا ہے کہ وہ بخت نصر کے حملہ بیت المقدس کے زمانہ میں صغر سن تھے اور چالیس ١ ؎ برس کی عمر میں بنی اسرائیل کے منصب ” فقیہ “ پر فائز ہوئے اور اس کے بعد ان کو منصب نبوت عطا ہوا اور وہ اور نحمیاہ نبی (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کا فرض انجام دیتے اور ارد شیر کے زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کی تعمیر بیت المقدس سے متعلق مشکلات کو دور کرنے کے سلسلہ میں شاہی دربار میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے رہے۔
<ref>(صحیفہ عزرا عہد نامہ قدیم)</ref>
اور مشہور قول کے مطابق جن بزرگوں نے سورة بقرہ کے واقعہ کا تعلق ان کے ساتھ بتایا ہے انھوں نے اس سلسلہ میں بعض مزید تفصیلات حضرت عبداللہ بن سلام اور کعب احبار وغیرہ سے نقل فرمائی ہیں جن کا ذکر ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں کیا ہے اور بعض مفسرین نے بھی آیات زیر بحث کی تفسیر کے ضمن میں ان کو نقل کیا ہے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعات کے ضمن میں ایک صحیح روایت نقل کی گئی تھی کہ کسی ” نبی “ کے ایک چیونٹی نے کاٹ لیا۔ انھوں نے غصہ میں چیونٹی کے سوراخ میں آگ ڈال کر تمام چیونٹیوں کو جلوادیا ‘ تب اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی ان پر عتاب فرمایا کہ تم نے ایک چیونٹی کی خطا پر تمام چیونٹیوں کو جلا دینا کس طرح جائز رکھا ؟ تو اس واقعہ کے متعلق ابن کثیر ؒ نے اسحاق بن بشر کی سند سے یہ نقل کیا ہے کہ ‘ ابن عباس ‘ مجاہد اور حسن بصری وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ نبی ” عزیر “ (علیہ السلام) تھے۔ <ref>(البدایہ والنہایہ و تاریخ طبری)</ref>
عزیر (علیہ السلام) کے متعلق بعض اور بھی واقعات نقل کیے جاتے ہیں مگر روایت اور درایت دونوں اعتبار سے ساقط الاعتبار ہیں بلکہ لغو اور لا طائل ہیں چنانچہ ابن کثیر وغیرہ نے بھی ان کو نقل کر کے رد کردیا ہے۔ <ref>(البدایہ والنہایہ جلد ٢ ص ٤٧)</ref></big>
 
[[فائل:Ezra's_Tomb_(7304692382).jpg|بائیں|تصغیر|250x250پکسل| 1924 [[عراق|میں جنوبی عراق کے]] شہر العمارہ میں واقع عزیر کا مقبرہ]]