"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 119:
<ref>(تذکرہ الحفاظ:۱/۳۵، مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد)</ref>
 
== تلاوت وتفسیر قرآن ==
 
تلاوت قرآن کے ساتھ آپ کو غیر معمولی شغف تھا، اس کی سوروآیات پر فکر وتدبر میں عمرعزیز کا بہت بڑا حصہ صرف کیا، اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ صرف بقرہ پر ۱۴برس صرف کیے ،<ref>(مؤطا امام مالک مطبع احمدی دہلی)</ref> اس غیر معمولی شغف نے آپ میں قرآن کی تفسیر و تاویل کا غیر معمولی ملکہ پیدا کردیاتھا، فہم قرآن کا ملکہ آپ میں عنفوان شباب ہی میں پیدا ہوگیا تھا، چنانچہ اکابر صحابہؓ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی علمی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے گرد صحابہؓ کا مجمع تھا، ابن عمرؓ بھی موجود تھے، آنحضرتﷺ نے قرآن پاک کی اس مثال:
"أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ الله مَثَلاً كَلِمَةً طَيّبَةً كَشَجَرةٍ طَيّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِى السماء تُؤْتِى أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبّهَا"
<ref>(ابراھیم)</ref>
تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی اچھی مثال دی ہے کہ وہ پاک درخت کے مثل ہے جسکی جڑ مضبوط ہے اورشاخیں آسمان تک ہیں وہ اپنے خدا کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے۔
کے متعلق صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ وہ درخت کون سا ہے، جو مرد مسلم کی طرح سدابہار ہے، اس کے پتے کبھی خزاں رسیدہ نہیں ہوتے اورہر وقت پھل دیتا رہتا ہے،اس سوال کے جواب میں تمام صحابہؓ حتی کہ حضرت ابوبکرؓ تک خاموش رہے، توآپﷺ نے خود بتایا کہ یہ کھجور کا درخت ہے ؛لیکن ابن عمرؓ پہلے ہی سمجھ چکے تھے؛ لیکن اکابر صحابہؓ کی خاموشی کی وجہ سے چپ رہے، جب حضرت عمرؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے جواب کیوں نہ دیا، تمہارا جواب دینا مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ محبوب ہوتا ۔
<ref>(بخاری وفتح الباری، کتاب التفسیر سورۂ ابراہیم وکتاب العلم باب الفہم)</ref>
قرآن کے الفاظ کے معنوں پر بہت غائر نظر تھی، وہ ان کے ایسے جامع معنی اختیار کرتے تھے جو مفہوم پر پورے طور سے عادی ہوتی تھے، چنانچہ"اَقِمِ الصَّلوٰۃ لِدُلُوک الشمس الی غسق الیل" میں دلوک کے معنی ڈھلنے کے لیتے تھے۔
"دلوک"لغت میں ڈھلنے زرد ہونے غروب ہونے ،تینوں معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، حضرت ابن عمرؓ اس کے معنی مطلق ڈھلنے کے لیتے تھے، <ref>(موطا امام مالک مطبع احمدی دہلی باب ماجاء فی ولوک الشمس وغسق الیل)</ref> اس معنی سے ظہر ،عصر اور مغرب تینوں کے اوقات متعین ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ میل یا زوال کی تین منزلیں ہیں، ایک متعارف جس میں سمت الراس سے زوال ہوتا ہے، جو ظہر کا وقت ہے،دوسرا جس میں سمت نظر سے ڈھلتا ہے، یہ عصر کا وقت ہے، تیسرا وہ جس میں سمت افق سے ڈھل کر غروب ہوجاتا ہے، یہ مغرب کا وقت ہے۔
بعض اوقات آیات کے شان نزول اورناسخ و منسوخ کی لاعلمی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہوجاتے ہیں، ابن عمرؓ اپنی فہم قرآنی سے اس قسم کے شکوک کا ازالہ کردیتے تھے ،ایک شخص کو قرآن پاک کی اس آیت:
"وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"
<ref>(التوبہ:۳۴)</ref>
جو لوگ سونا اورچاندی جمع کرتے ہیں اوراس کو خدا کی راہ میں صرف نہیں کرتے،اس کو عذاب الیم کی بشارت دیدو۔
کے بارہ میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ زکوٰۃ دینے کے بعد کیوں انفاق فی سبیل اللہ کا مطالبہ ہے اور عدم انفاق کی صورت میں عذاب الیم کی وعید کیوں ہے، اس نے ابن عمرؓ سے پوچھا، آپ نے بتایا کہ یہ وعید اس شخص کے لیے ہے،جو سونا چاندی جمع کرکے زکوٰۃ نہیں دیتا، وہ قابل افسوس ہے اور یہ آیت زکوٰۃ کے نزول کے قبل کی ہے،زکوٰۃ توخود ہی مال کو ظاہر کردیتی ہے ۔<ref>(بخاری :۱/۱۸۸،کرزن پریس دہلی)</ref>