"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 134:
کے بارہ میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ زکوٰۃ دینے کے بعد کیوں انفاق فی سبیل اللہ کا مطالبہ ہے اور عدم انفاق کی صورت میں عذاب الیم کی وعید کیوں ہے، اس نے ابن عمرؓ سے پوچھا، آپ نے بتایا کہ یہ وعید اس شخص کے لیے ہے،جو سونا چاندی جمع کرکے زکوٰۃ نہیں دیتا، وہ قابل افسوس ہے اور یہ آیت زکوٰۃ کے نزول کے قبل کی ہے،زکوٰۃ توخود ہی مال کو ظاہر کردیتی ہے ۔<ref>(بخاری :۱/۱۸۸،کرزن پریس دہلی)</ref>
 
اسی آیت میں ایک شخص نے کنز کے معنی پوچھے، آپ نے ایسے لطیف معنی بتائے کہ اگر یہ آیت نزول زکوۃ کے بعد کی بھی ہوتی تب بھی اس پر کوئی اعتراض نہ ہوسکتا، کنز کے لغوی معنی مال مدفونہ کے ہیں، حضرت ابن عمرؓ نے بتایا کہ کنز اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوٰۃ ادا کی جائے، اس معنی سے لاینفقون کا مفہوم صرف یکنزون سے ادا ہوجاتا ہے اورینفقونہا سے مزید تاکید ہوجاتی ہے اورکنز کے لغوی معنی بھی نہیں جاتے ،کیونکہ زکوٰۃ نہ دی جائے گی تو خواہ مخواہ جمع ہی ہوگا، ورنہ پھر زکوٰۃ کا مطالبہ اورعذاب الیم کی وعید کیوں ہوتی اورجمع بمنزلہ دفن کے ہے، اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ قرآن پاک اصل مفہوم ومنشاء اوراس کے انداز بیان کو سمجھنے میں ابنِ عمرؓ کو کیسا ملکہ حاصل تھا۔
 
ایک مرتبہ ایک شخص نے پوچھا کہ آپ فتنہ میں قتال کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، قرآن کا حکم ہے کہ:
قاتلو ھم حتی لاتکون فتنۃ ان لوگوں سے مقاتلہ کرویہاں تک کہ فتنہ نہ باقی رہے
یہ سوال مسلمانوں کی خانہ جنگی کے زمانہ میں کیا گیا تھا، انہوں نے فرمایا تم فتنہ کے معنی کیا سمجھتے ہو، یہاں قتال علی الفتنہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم بادشاہت کے لیے لڑو، بلکہ قتال سے وہ قتال مراد ہے جو آنحضرت ﷺ نے مشرکین کے ساتھ فرمایا تھا، کہ ان کے دین میں داخل نہ ہونا مسلمانوں کے لیے فتنہ تھا۔
<ref>(موطا امام مالک :۱۰۹)</ref>
صحیح بخاری میں اس واقعہ کے متعلق جو روایت ہے وہ اس سے زیادہ صحیح ہے کہ حضرت ابن زبیرؓ کے ہنگامہ کے زمانہ میں دو آدمی ان کے پاس آئے اور کہا سب لوگ ختم ہوچکے، آپ عمرؓ کے بیٹے اور رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، آپ کیوں نہیں میدان میں آتے، فرمایا خدا نے بھائی کا خون حرام کیا ہے اس لیے میں نہیں نکلتا ،دونوں نے کہا خدا توخود فرماتا ہے۔
"وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ"
<ref>(البقرہ: ۱۹۳)</ref>
یعنی ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اوردین خالص خدا کے لیے ہوجائے۔
فرمایا بیشک ہم لڑے یہاں تک فتنہ باقی نہ رہا اوردین خدا کے لیے ہوگیا اور تم لوگ اس لیے لڑنا چاہتے ہو کہ فتنہ پیدا ہو اوردین غیر خدا کے لیے ہوجائے، دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا یہ اس وقت کا حکم ہے جب مسلمان تعداد میں کم تھے اور وہ اپنے مذہب کا اعلان نہیں کرسکتے اورجب کرتے تھے تو کفاران کو ستاتے تھے، یہی فتنہ تھا جس کو روکنے کے لیے جہاد تھا، اب مسلمانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی،اس لیے اب اس فتنہ کا ڈر نہیں رہا۔
<ref>(یہ دونوں روایتیں صحیح بخاری :۶۴۸ /۲،کتاب التفسیر باب قاتلو ھم حتی لاتکون فتنۃ میں ہیں)</ref>
 
== فقیہ ==