"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 154:
<ref>(ایضاً:۶۳۰،باب الرباء)</ref>
 
== حدیث کی اشاعت و تعلیم ==
 
اس تلاش وجستجو نے ابن عمرؓ کو حدیث کا دریا بنادیا تھا جس سے ہزاروں لاکھوں مسلمان سیراب ہوئے، ان کی ذات سے حدیث کا وافرحصہ اشاعت پذیر ہوا،حضرت ابن عمرؓ آنحضرت ﷺ کے بعد ساٹھ سال سے زیادہ زندہ رہے، اس میں آپ کا مشغلہ صرف علم کی اشاعت تھا، <ref>(استیعاب :۳۸۱/۱)</ref> اسی لیے آپ نے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا کہ اس سے یہ مبارک سلسلہ منقطع ہوجاتا، مدینہ میں مستقل حلقہ درس تھا، اس کے علاوہ اشاعت کے لیے سب سے بہترین موقع حج کا تھا، جس میں تمام اسلامی ملکوں کے مسلمان جمع ہوتے تھے، چنانچہ آپ اس موقع پر فتوی دیتے تھے، اس سے بہت جلد مشرق سے مغرب تک احادیث پھیل جاتی تھیں،<ref>(اسدالغابہ:۳/۲۲۸)</ref>لوگوں کے گھروں پر جاکر حدیث سناتے تھے،زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ابن عمرؓ کے ساتھ عبداللہ بن مطیع کے یہاں گئے،عبداللہ نے خوش آمدید کہا اوران کے لیے فرش بچھایا،انہوں نے کہا میں اس وقت تمہارے پاس صرف ایک حدیث سنانے کی غرض سے آیا ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جس شخص نے (امیر کی) اطاعت سے دستبرداری کی وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اورجو شخص جماعت سے الگ ہو کر مراوہ جاہلیت کی موت مرا۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل :۲/۱۵۴)</ref>
ان کی تعلیم کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا تھا،علی بن عبدالرحمن کا بیان ہے کہ میں حالتِ نماز میں کنکریوں سے شغل کررہا تھا،نماز تمام کرچکا تو ابن عمرؓ نے ٹوکا اورکہا جس طریقہ سے رسول اللہ ﷺ پڑھتے تھے، اس طریقہ سے پڑھا کرو، پھر خود ہی طریقہ بتایا ۔
<ref>(موطا امام مالک العمل فی الجلوس فی الصلوٰۃ: ۳۰)</ref>
ایک مرتبہ سعید بن یسار مکہ کے راستہ میں آپ کے ساتھ تھے صبح ہونے کے قریب ہوئی تو سعید نے سواری سے اتر کرو ترپڑھی اور پڑھ کر پھر ابن عمرؓ سے مل گئے، انہوں نے پوچھا کہاں تھے، کہاصبح ہوجانے کے خوف سے سواری سے اتر کروتر اداکی،ابن عمرؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات تمہارے لیے اسوۂ حسنہ نہیں ہے، سعد نے کہا خدا کی قسم ضرور ہے، کہا رسول اللہ ﷺ اونٹ ہی پر بیٹھے بیٹھے وتر پڑھتے تھے۔
<ref>(موطا امام مالک باب الامر بالدیہ :۴۳)</ref>
خود آپ کی ذات گرامی اوصاف نبوی ﷺ کی ایسی زندہ تصویر اورایسا جامع مرقع تھی جو سینکڑوں درس اورہزاروں تلقینات سے زیادہ کارآمد تھی جس کا صرف ایک نظر دیکھ لینا اورچند ساعتیں آپ کی صحبت اٹھالینا برسوں کے درس و تدریس کے برابر ہوتا ہے، آپ کے صحیفہ زندگی میں تمام احادیث عملاً بعنوان جلی مرقوم تھیں وہ تمام صحابہ اورتابعین جنہوں نے ان کو دیکھا تھا، بالاتفاق ان کی اس حیثیت کو تسلیم کرتے تھے، حضرت ابوحذیفہ ؓ کہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ہرشخص کچھ نہ کچھ بدل گیا،عمرؓ اوران کے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ نہیں بدلے،حضرت عائشہ ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ عہد نبوی کی حالت و کیفیت کا عبداللہ بن عمرؓ سے زیادہ کوئی پابند نہیں رہا، حضرت نافع جو عبداللہ بن عمرؓ کے خادم اورشاگرد خاص تھے اورجو ان کی خدمت میں تیس برس رہے تھے، وہ تابعین اوراپنے شاگردوں سے کہتے کہ اگر اس زمانہ میں ابن عمرؓ ہوتے تو ان کو آثارنبوی کی شدت سے اتباع کرتے ہوئے دیکھ کر تم یہی کہتے کہ یہ دیوانہ ہے۔
<ref>(مستدرک :۳/۵۶۱ ،وابن سعد تذکرہ ابن عمرؓ)</ref>
آپ کی ذات دوسروں کے لیے نمونہ تھی، لوگ دعا کرتے تھے کہ خدایا ہماری زندگی میں ابن عمرؓ کو زندہ رکھ کہ ان کی اقتدا سے فیض یاب ہوتے رہیں، ان سے زیادہ عہد رسالت کا کوئی واقف کار نہیں۔
<ref>(ابن سعد جز،۴ قسم اول :۱۰۶)</ref>
اکابر علماء مشکلات میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے، سعید بن جبیرجو خود بھی بڑے تابعی تھے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے لعان کے متعلق مجھ سے سوال کیا،مجھ کو معلوم نہ تھا، میں نے ابن عمرؓ سے جاکر دریافت کیا،<ref>(مسلم کتاب اللعان:۵۹۲/۱)</ref> ابن شہاب زہری جن سے بڑا کوئی محدث تابعین میں نہیں گذرے، کہاکرتے تھے کہ ابن عمرؓ وہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے بعد ساٹھ برس تک افادۂ خلق میں مصروف رہے، ان سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات چھپی نہ تھی۔
<ref>( تذکرۃ الحفاظ کرہ ابن عمرؓ)</ref>
چونکہ آپ ایک عالَم کے مقتدا تھے، آپ کا ہر قول وفعل دوسروں کے لیے نمونہ بن جاتا تھا،اس لیے اپنے ان امورواعمال کی جن کا سنت سے تعلق نہ ہوتا،بلکہ طبعاًیابدرجہ مجبوری سرزد ہوتے توتصریح فرمادیتے تھے، آپ مروہ میں بال بنوارہے تھے،لوگ گردوپیش جمع ہوکر دیکھنے لگے،فرمایا یہ سنت نہیں ہے، بلکہ بال تکلیف دے رہے تھے،اس لیے بنوادیے۔
<ref>( ابن سعد جز۴،قسم اول :۳۴)</ref>
ایک شخص آپ کے پہلو میں نماز پڑھ رہا تھا، چوتھی رکعت میں پلتھی مارکر بیٹھا اور دونوں پاؤں موڑلیے، آپ نے اس کو مذموم بتایا، اس نے کہا آپ ایسے بیٹھتے ہیں ،فرمایا مجبوری سے کرتا ہوں، <ref>(موطا امام مالک العمل فی الجلوس فی الصلوٰۃ :۳۰)</ref> آپ کا بدن بھاری تھا اس لیے مسنون طریقہ سے نہیں بیٹھ سکتے تھے۔