"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 218:
<ref>( اسد الغابہ ترجمہ ابن عمرؓ مطبوعہ مصر)</ref>
 
== فضائلِ اخلاق ==
 
خشیتِ الہی تمام اعمال صالحہ کی بنیاد ہے، خشیت یہ ہے کہ خدا کے ذکر سے انسان کے قلب میں گداز پیدا ہو، قرآن پاک میں صحابہؓ کی تعریف میں ہے"إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ"کہ جب خدایاد آتا ہے تو ان کے دل ہل جاتے ہیں،حضرت ابن عمرؓ میں یہ کیفیت بڑی نمایاں تھی، چنانچہ وہ قرآن پاک کی یہ آیت :
أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ
(آیہ)
کیا مسلمانوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد سے ان کے دل میں خشوع پیدا ہو۔
پڑھتے تھے تو ان پر بے انتہارقت طاری ہوتی، <ref>(اصابہ:۱۰۶/۴،مطبع شرفیہ مصر)</ref> ایک مرتبہ حضرت عمیرؓ نے ، "فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ" تلاوت کی توآپ اس قدر روئے کہ داڑھی اورگریبان آنسوؤں سے تر ہوگئے اورپاس بیٹھنے والوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ بہ مشکل برداشت کرسکے، <ref>(ابن سعد جز۴، قسم اول :۱۶۹)</ref> فتنہ کے زمانہ میں جب ہر حوصلہ مند اپنی خلافت کا خواب دیکھتا تھا، ابن عمرؓ اپنے فضل و کمال، زہد واتقا، لوگوں میں اپنی عام ہر دلعزیزی اورمقبولیت ؛بلکہ اکثروں کی خواہش کے باوجود خداکے خوف سے محترز رہے، نافعؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں سے سنا، ایک دن ابن عمرؓ خانہ کعبہ میں سربسجود ہوکر کہہ رہے تھے کہ خدایا تو خوب جانتا ہے کہ میں نے حصولِ دنیا میں قریش کی مزاحمت صرف تیرے خوف سے نہیں کی۔
<ref>(اسد الغابہ:۲۲۹/۳)</ref>