"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 245:
<ref>(ابن سعد جز ۴ ق ۱:۱۱۰)</ref>
 
== مشتبہات سے اجتناب ==
 
شدت ورع کی بنا پر ہمیشہ مشتبہ چیزوں سے پرہیز فرماتے تھے،مروان نے اپنے زمانہ میں میل کے نشان کے پتھر نصب کرائے تھے، ابن عمرؓ ادھر رخ کرکے نماز پڑھنا مکروہ سمجھتے تھے، <ref>(ازالۃ الخفا:۱۱۰ /۲،بحوالہ مصنف ابن ابی بکر )</ref> کہ اس میں پتھر کی پرستش کا خیالی شائبہ ہے اس طرح حضرت ابن عمرؓ اوردوسرے صحابہؓ ہمیشہ عہدِرسالت ﷺ اور اس کے بعد خلفائے اربعہؓ کے وقت تک کھیتوں کا لگان لیا کرتے تھے، لیکن ایک مرتبہ رافع بن خدیجؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے کھیتوں کے کرایہ سے منع کیا ہے، حضرت ابن عمرؓ نے سناتو جاکر ان سے تصدیق چاہی، رافع نے کہا کہ ہاں منع کیا ہے کہا تم کو معلوم ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں زمین پر لگان لیا جاتا تھا، اگرچہ ان کو اس کا یقین نہ تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا حکم دیا ہوگا، مگر محض اس احتمال کی بنا پر لگان لینا چھوڑدیا کہ شاید بعد میں آنحضرت ﷺ نے ممانعت فرمادی ہو اورمجھے علم نہ ہوا ہو۔
<ref>(بخاری: ۱/۳۱۵ ،باب ماکان اصحاب النبی ﷺ یو اسی بعضہم بعضانی الزراعۃ ولاثمر)</ref>
ککڑی اورخربوزہ صرف اس لیے نہ کھاتے تھے کہ اس میں گندی چیزوں کی کھاد دی جاتی ہے۔
<ref>(ابن سعد :۴ /۱۲۰)</ref>
ایک مرتبہ کسی نے کھجور کا سرکہ ہدیہ بھیجا،پوچھا کیا چیز ہے، معلوم ہوا کھجور کا سرکہ ہے انہوں نے اس خیال سے پھکوادیا کہ سکرنہ پیدا ہوگیا ہو۔
<ref>(ابن سعد جزو۴ ق ۱ :۱۲۲)</ref>
اگرچہ غنا کا مسئلہ مختلف فیہ ہے تاہم احتیاط کا اقتضایہی ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے؛ چنانچہ جب اپنے صاحبزادے کو گنگناتے ہوئے سنتے تو تنبیہ فرماتے۔
<ref>(ابن سعد جزو۴ ق ۱ :۱۱۴)</ref>
اگر کسی چیز میں صدقہ کے شائبہ کا بھی وہم ہوتا تو اس کو استعمال نہ کرتے ایک دن بازار گئے وہاں ایک دودھاری بکری بک رہی تھی، اپنے غلام سے کہا لے لو، اس نے اپنے دام سے خرید لیا، آپ دودھ سے افطار کرنا پسند کرتے تھے، اس لیے افطار کے وقت اسی بکری کا دودھ پیش کیا گیا، فرمایا کہ یہ دودھ بکری کا ہے اوربکری غلام کی خریدی ہوئی ہے اورغلام صدقہ کا ہے اس لیے اس کو لے جاؤ، مجھ کو اس کی حاجت نہیں ہے۔
<ref>(ابن سعد قسم اول جز ۴ :۱۱۸)</ref>
ایک مرتبہ کہیں دعوت میں تشریف لے گئے، وہاں پھولدار فرش بچھا ہوا تھا،کھانا چناگیاتو پہلے ہاتھ بڑھایا،پھر کھینچ لیا اورفرمایا کہ دعوت قبول کرنا حق ہے،مگر میں روزہ سے ہوں ،یہ عذر پھولدار فرش کی وجہ سے تھا۔
<ref>(ابن سعد قسم اول جز ۴ :۱۲۷)</ref>
ایک مرتبہ احرام کی حالت میں سردی معلوم ہوئی ،فرمایا مجھ کو اُڑھادو، آنکھ کھلی تو چادر کی لحاف پھول بوٹوں پر نظر پڑی جو ابریشم سے کڑھے ہوئے تھے، فرمایا اگر اس میں یہ چیز نہ ہوتی تو استعمال میں کوئی مضائقہ نہ تھا۔
<ref>(اصابہ تذکرہ ابن عمرؓ)</ref>
== مزید دیکھیے ==
* [[رفع الیدین]]