"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 260:
ایک مرتبہ احرام کی حالت میں سردی معلوم ہوئی ،فرمایا مجھ کو اُڑھادو، آنکھ کھلی تو چادر کی لحاف پھول بوٹوں پر نظر پڑی جو ابریشم سے کڑھے ہوئے تھے، فرمایا اگر اس میں یہ چیز نہ ہوتی تو استعمال میں کوئی مضائقہ نہ تھا۔
<ref>(اصابہ تذکرہ ابن عمرؓ)</ref>
 
== صدقات وخیرات ==
صدقہ وخیرات حضرت ابن عمرؓ کا نمایاں وصف تھا، ایک ایک نشست میں بیس بیس ہزار تقسیم کردیتے تھے، دودو تین تین ہزار کی رقمیں تو عموماً خیرات کیا کرتے تھے، <ref>(اسد الغابہ:۳/۲۲۹)</ref> بسا اوقات یکمشت ۳۰ ہزار کی رقم خدا کی راہ میں لٹادی،<ref>(ابن سعدق۱ جز۴:۱۱۰)</ref> قرآن پاک میں نیکوکاری کے لیے محبوب چیز خدا کی راہ میں دینے کی شرط ہے، "لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ" حضرت ابن عمرؓ اس آیت کی عملی تفسیر تھے، آپ ہمیشہ اپنی پسندیدہ چیزوں کو راہِ خدا میں دیدیتے تھے،چنانچہ جو غلام آپ کو پسند ہوتا اس کو راہ خدا میں آزاد کردیتے اورآپ کی نظر میں وہ غلام پسندیدہ ہوتا، جو عبادت گذار ہوتا، غلام اس راز کو سمجھ گئے تھے، اس لیے وہ مسجدوں کے ہورہتے ، حضرت ابن عمرؓ اس کے ذوق عبادت کو دیکھ کر خوش ہوتے اورآزاد کردیتے ،آپ کے احباب مشورہ دیتے کہ آپ کے غلام آپ کو دھوکہ دیتے ہیں اور صرف آزادی کے لیے یہ دینداری دکھاتے ہیں، آپ فرماتے ،"من خد عناباللہ انخد عنالہ" جو شخص ہم کو خدا کے ذریعہ سےدھوکہ دیتا ہے ہم اس کا دھوکہ کھا جاتے ہیں، <ref>(ابن سعد جزء ۴ ق اول :۱۲۳)</ref> آپ کو ایک لونڈی بہت محبوب تھی، اس کو راہ خدا میں آزاد کرکے اپنے ایک غلام کے ساتھ بیاہ دیا، اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا، لڑکے کو آپ چومتے اورفرماتے کہ اس سے کسی کی بوآتی ہے، (اصابہ : ۴/۱۰۹) اسی طریقہ سے ایک دوسری چہیتی لونڈی کو آزاد کردیا اورفرمایا
"لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ" <ref>(ایضا :۱۰۸)</ref> آپ اس کثرت سے غلام آزاد کرتے تھے کہ آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہوگئی تھی، <ref>(تہذیب التہذیب: ۵/۳۳۰)</ref> ایک مرتبہ انہوں نے نہایت عمدہ اونٹ خریدا اورسوار ہوکر حج کو چلے، اتفاق سے اس کی چال بہت پسند آئی، فوراً اتر پڑے اورحکم دیا کہ سامان اتارلو اوراس کو قربانی کے جانوروں میں داخل کردو۔
<ref>( بخاری جلد ۲)</ref>
 
== مسکین نوازی ==
مسکین نوازی آپ کا نمایاں وصف تھا، خود بھوکے رہتے، لیکن مسکینوں کی شکم سیری کرتے ،عموماً بغیر مسکین کے کھانا نہ کھاتے تھے۔
آپ کی اہلیہ آپ کی غیر معمولی فیاضی سے بہت نالاں رہتی تھیں اورشکایت کیا کرتی تھیں کہ جوکھانا میں ان کے لیے پکاتی ہوں وہ کسی مسکین کو بلاکر کھلادیتے ہیں،فقراء اس کو سمجھ گئے تھے اس لیے مسجد کے سامنے آپ کی گذرگاہ پر آکر بیٹھتے تھے، جب آپ مسجد سے نکلتے تو ان کو لیتے آتے تھے بیوی نے عاجز ہوکر ایک مرتبہ کھانا فقراء کے گھروں پر بھجوادیا اورکہلا بھیجا کہ راستہ میں نہ بیٹھا کریں اوراگر وہ بلائیں تو بھی نہ آئیں ابن عمرؓ مسجد سے واپس ہوکر حسب معمول گھر آئے اور غصہ میں حکم دیا کہ فلاں فلاں محتاجوں کو کھانا بھجوادو،کیا تم چاہتی ہو کہ میں رات فاقہ میں بسرکرو ں؛چنانچہ بیوی کے اس طرز عمل پر رات کو کھانا نہ کھایا۔
<ref>(ابن سعد جزو ۴ قسم اول :۱۳۲)</ref>
اگر دستر خوان پر کسی فقیر کی صدا کانوں میں پہنچ جاتی تو اپنے حصہ کا کھانا اس کو اٹھوادیتے اورخود روزہ سے دن گذاردیتے ،ایک مرتبہ مچھلی کھانے کی خواہش ہوئی، آپ کی بیوی صفیہ نے بڑے اہتمام سے لذیذ مچھلی تیار کی، ابھی دسترخوان چنا ہی گیا تھا کہ ایک فقیر نے صدا لگائی فرمایا فقیر کو دیدو،بیوی کو عذر ہوا، پھر دوبارہ فرمایا کہ نہیں دیدو مجھ کو یہی پسند ہے، لیکن چونکہ بیوی نے آپ کی فرمائش سے پکائی تھی، اس لیے اس کو نہ دیا اورکھانے کے لیے انگور کے چند دانے خرید ے گئے، ایک سائل آیا، حکم دیا انگور دیدو لوگوں نے عرض کیا آپ اس کو کھالیجئے اس کو دوسرے دیدیے جائیں گے فرمایا نہیں یہی دیدو مجبوراً وہی دینے پڑے اوردے کر پھر اس سے خریدے گئے، <ref>(ایضا :۱۱۶)</ref>آپ کا یہ سلوک ان ہی لوگوں کے ساتھ تھا جو درحقیقت اس کے مستحق ہوتے تھے؛ چنانچہ جب دسترخوان پر بیٹھتے اورکوئی خوش پوش اورمر فحہ الحال دکھائی پڑتا، تونہ بلاتے ،لیکن آپ کے بھائی اورلڑکے وغیرہ اس کو بیٹھا لیتے اوراگر کوئی خستہ حال اورمسکین نظر آتا ،تو اس کو فورا ًبلاتے اورفرماتے یہ لوگ شکم سیر اشخاص کو بلاتے ہیں اور جو بھوکے اورکھانے کے حاجتمند ہوتے ہیں ان کو چھوڑدیتے ہیں۔
<ref>(ایضاً)</ref>
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
== مزید دیکھیے ==
* [[رفع الیدین]]