"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 273:
<ref>(ایضاً)</ref>
 
== فیاضی اورسیرچشمی ==
 
فقراء ومساکین کے علاوہ آپ کے ہم چشم اورہم رتبہ اشخاص پر بھی آپ کا ابرکرم رہتا تھا، اگر کبھی بھولے سے کوئی چیز کسی کے پاس چلی جاتی تو پھر اس کو واپس نہ لیتے تھے، عطا کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ابن عمرؓ نے مجھ سے دوہزار درہم قرض لیے، جب ادا کیے تو دوسوزیادہ آگئے میں نے واپس کرنا چاہاتو کہا تمہیں لے لو، <ref>(ایضاً :۱۲۲)</ref> اسی طریقہ سے ایک مرتبہ ایک اور رقم کسی سے قرض لی جب واپس کی تو مقروضہ درہم سے زیادہ کھرے درہم ادا کیے، قرض خواہ نے کہا یہ درہم میرے درہموں سے زیادہ کھرے ہیں، فرمایا عمدا ایسا کیا تھا، <ref>(ایضاً)</ref> آپ کے غلام نافع کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ بیس ہزار درہم ایک وقت تقسیم کردئے ، تقسیم ہوجانے کے بعد جو لوگ آئے ان کو ان لوگوں سے قرض لے کردیتے،<ref>( ابن سعد جزو۴ ق۱:۱۰۹)</ref> جن کو پہلے دے چکے تھے، اقامت کی حالت میں بھی اکثر روزہ رکھتے تھے،لیکن اگر کوئی مہمان آجاتا تو افطار کرتے کہ مہمان کی موجودگی میں روزہ رکھنا فیاضی سے بعید ہے، <ref>(ابن سعد تذکرہ ابن عمرؓ)</ref> جہاں مہمان جاتے ۳ دن کی مسنون مہمانی کے بعد اپنا سامان خود کرتے ،جب مکہ جاتے تو عبداللہ بن خالد کے گھرانے میں اترتے ؛لیکن ۳ دن کے بعد اپنی جملہ ضروریات بازار سے پوری کرتے تھے،
<ref>(ایضاً)</ref>
ایک مرتبہ کہیں جارہے تھے، راستہ مین ایک اعرابی ملا، حضرت ابن عمرؓ نے سلام کیا اورسواری کا گدھا اورسرکا عمامہ اتار کر اس کو دیدیا، ابن دینار ساتھ تھے، یہ فیاضی دیکھ کر بولے، خدا آپ کو صلاحیت دے یہ اعرابی تو معمولی چیزوں سے خوش ہوجاتے ہیں ،یعنی ا تنی فیاضی کی ضرورت نہ تھی، فرمایا ان کے والد میرے والد کے دوست تھے، میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ سب سے بڑی نیکی اپنے باپ کے احباب کے ساتھ صلہ رحمی ہے۔
<ref>(ایضاً)</ref>