"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 291:
<ref>(مسند احمد بن حببل :۲/۱۱۳)</ref>
 
== اختلاف اُمت کا لحاظ ==
 
حضرت ابن عمرؓ اس کام سے جس میں امت مسلمہ کے اختلاف وافتراق کا ادنی خطرہ بھی نکلتا ہو احتراز فرماتے تھے، ان کی حق پرستی مسلم ہے، لیکن امت کے ضرر کے خیال سے بعض مواقع پر خاموش ہوجاتے تھے ،فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ امیر معاویہؓ نے دعویٰ سے کہا کہ خلافت کا ہم سے زیادہ حقدار کون ہے، میرے دل میں خیال آیا کہ جواب دوں کہ تم سے زیادہ وہ حقدار ہے جس نے تم کو اورتمہارے باپ کو اس پر مارا تھا،مگر فساد کے خیال سے خاموش رہا، <ref>(طبقات ابن سعد جز ۴ ق۱:۱۳۴، وبخاری)</ref>اختلاف امت سے بچنے کا ادنی ادنی باتوں میں خیال رکھتے تھے،منی میں آنحضرتﷺ عصر کی نماز میں قصر کرتے تھے، آپ کے بعد حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کا بھی یہی طریقہ رہا،حضرت عثمانؓ بھی ابتدا میں دوہی رکعت پڑھتے تھے، مگر کچھ دنوں کے بعد پوری چار پڑھنے لگے، حضرت ابن عمرؓ بھی تفریق کے خیال سے امام کے پیچھے چار پڑھتے،لیکن اکیلے ہوتے تو قصر کرتے اورفرماتے کہ "الخلاف منکر" <ref>(ابوداؤد:۱۹۶/۱، وسملم جلد ۱ باب قصر الصلوۃ بمعنی)</ref> اختلاف ناپسندیدہ ہے،فرمایا کرتے تھے کہ اگر میری خلافت پردوشخص کے علاوہ پوری امت محمدی ﷺ متفق ہوجائے تو بھی میں ان دوسے نہ لڑوں گا، لوگوں کو نصیحت کرتے کہ ہم دوسروں سے اس لیے لڑتے تھے کہ دین فساد کا ذریعہ نہ بنے اورخالص خدا کے لیے ہوجائے اورتم لوگ اس سے لڑتے ہو کہ دین غیر خدا کا ہو کر فتنہ و فساد کی بنیاد بن جائے، ایک شخص نے کہا کہ آپ سے زیادہ فتنہ پردراز امت محمد میں کوئی نہیں، فرمایا یہ کیسے خدا کی قسم نہ میں نے ان کا خون بہایا، نہ ان کی جماعت میں اختلاف ڈالا، نہ ان کی مجتمع قوت منتشرکی، اس نے برسبیل مبالغہ کہا کہ اگر آپ چاہتے تو دوشخص بھی آپ کی خلافت میں اختلاف نہ کرتے ،آپ نے فرمایا میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ ایک شخص کہے کہ میں تمہاری خلافت سے راضی ہوں، دوسرا کہے کہ میں راضی نہیں ہوں ،براء روایت کرتے ہیں کہ میں ایک دن عبداللہ بن عمرؓ کی لاعلمی میں ان کے پیچھے پیچھے جارہا تھا وہ فرماتے جاتے تھے کہ لوگ تلواریں لیے آپس میں کٹے مرتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ ابن عمرؓ بیت کے لیے ہاتھ بڑھاؤ ۔
<ref>( ابن سعد جزء ۴ ق ۱ :۱۱۱)</ref>
اسی اختلاف امت سے بچنے کے لیے ہر خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرلیتے تھے کہ مبادانکار کسی نئے فتنہ کی بنیاد نہ بن جائے، چنانچہ فتنہ کے زمانہ میں ہر امیر کے پیچھے نماز پڑھ لیتے اور زکوٰۃ ادا کردیتے خود فرماتے تھے کہ میں دورِ فتن میں جنگ وجدل سے الگ رہتا ہوں اورہر غالب کے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہوں،<ref>( ایضاً:۱۱)</ref> مگر یہ اطاعت اسی حد تک تھی جہاں تک مذہب اجازت دیتا اور اگر اس سے مذہبی پابندی میں کوئی خلل پڑتا، تو اطاعت ضروری نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ ابتداً حجاج کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے، لیکن جب اس نے نماز میں تاخیر شروع کی تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی ؛بلکہ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے آئے۔
<ref>(طبقات ،جز۴ ق۱،تذکرہ ابن عمر)</ref>
اس احتیاط کی بنا پر حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں فتنہ وفساد اورافتراق کا جو طوفان اٹھا،جس میں بہت کم ایسے مسلمان تھے،جن کا ہاتھ ایک دوسرے کے خون سے رنگین نہ ہوا ہو،ابن عمرؓ اپنے کمالِ احتیاط کے باعث اس ہنگامہ عام میں بھی بچے رہے ،چنانچہ محمد کہتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص مستثنی کیا جاسکتا ہے تو وہ عبداللہ بن عمر ہیں۔