"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 298:
اس احتیاط کی بنا پر حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں فتنہ وفساد اورافتراق کا جو طوفان اٹھا،جس میں بہت کم ایسے مسلمان تھے،جن کا ہاتھ ایک دوسرے کے خون سے رنگین نہ ہوا ہو،ابن عمرؓ اپنے کمالِ احتیاط کے باعث اس ہنگامہ عام میں بھی بچے رہے ،چنانچہ محمد کہتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص مستثنی کیا جاسکتا ہے تو وہ عبداللہ بن عمر ہیں۔
 
== اظہارِحق میں جرأت وبیباکی ==
 
اس مصالحانہ اور مرنج ومرنجان زندگی کے باوجود دینی اورمذہبی معاملات میں ان کی حق گوئی مصالح امت کے خیال پر غالب آجاتی تھی ،چنانچہ بنی امیہ کے جابرانہ طرز عمل پر نہایت سختی سے نکتہ چینی کرتے تھے،حجاج کے مظالم سے دنیائے اسلام تنگ آگئی تھی ؛مگر کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی؛ لیکن حضرت ابن عمرؓ بے خوف وخطر اس کے منہ پر کہہ دیتے ،ایک مرتبہ حجاج خطبہ دے رہا تھا، حضرت ابن عمرؓ بھی تھے،آپ نے فرمایا یہ خدا کا دشمن ہے اس نے حرام الہی کو تباہ کیا، بیت اللہ کو تباہ کیا،اولیا اللہ کو قتل کیا،<ref>(تذکرہ الفاظ:۳۲/۱)</ref> ایک مرتبہ حجاج نے دوران خطبہ میں کہا کہ عبداللہ بن زبیرؓ نے کلام اللہ میں تغیر و تبدل کیا ہے،حضرت ابن عمرؓ نے جھلا کر فرمایا کہ توجھوٹ بکتا ہے نہ ابن زبیرؓ میں اتنی طاقت ہے اورنہ تیری یہ مجال ہے، <ref>(ابن سعد،جزو۴،قسم اول،:۱۳۵)</ref> مرض الموت میں جب حجاج عیادت کو آیا اور انجان بن کر کہا کاش زخمی کرنے والے کا مجھ کو علم ہوجاتا تو بگڑکر کہا کہ وہ تمہارا نیزہ تھا حجاج نے پوچھا یہ کیسے کہا تم نے ایام حج میں لوگوں کو مسلح کیا اور حرم محترم میں ہتھیاروں کو داخل کیا،پھر پوچھتے ہو،کس نے زخم کیا، <ref>(بخاری:۱۳۲/۱)</ref> ایک مرتبہ حجاج مسجد میں خطبہ دے رہا تھا، اس کو اس قدر طول دیاکہ عصر کا وقت آخر ہوگیا آپ نے آواز دی کہ نماز کا وقت جارہا ہے،تقریر ختم کرو اس نے نہ سنا، دوبارہ پھر کہا اس مرتبہ بھی اس نے خیال نہ کیا تیسری مرتبہ پھر کہا تین مرتبہ کہنے کے بعد حاضرین سے فرمایا،اگر میں اٹھ جاؤں تو تم بھی اٹھ جاؤ گے لوگوں نے کہاہاں چنانچہ یہ کہہ کر کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم کو نماز کی ضرورت نہیں ہے اٹھ گئے اس کے بعد حجاج منبر سےاتر آیا اورنماز پڑھی اورابن عمرؓ سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ،کہا کہ ہم لوگ نماز کے لیے مسجد میں آتے ہیں، اس لیے جس وقت نماز کا وقت آجائے،اس وقت فورا ًتم کو نماز پڑھنی چاہیے، نماز کے بعد جس قدر تمہارا دل چاہے،بکا کرو،<ref>(ابن سعد قسم ۱،:۱۱۷)</ref> اسی وجہ سے خلفائے بنوا میہ اپنی رعونت کے باوجود ان کا بہت لحاظ کرتے تھے،آنحضرت ﷺ کے وقت سے خط لکھنے کا یہ طریقہ تھا کہ کاتب بسم اللہ کے بعد اپنا نام لکھتا،پھر مکتوب الیہ کا نام لکھتا کہ منجانب فلاں ابی فلاں لیکن خلفائے امیہ نے جہاں اوربدعات رائج کیں وہاں اس طریقہ کو بھی بدل دیا اوراظہار ترفع کے لیے یہ طریقہ رائج کیا کہ خط میں پہلے خلیفہ کا نام لکھا جائے پھر بھیجنے والا اپنا نام تحریر کرے ابن عمرؓ کی خود اری اس کو گوارا نہیں کرسکتی تھی، اس لیے انہوں نے جو بیعت نامہ لکھا،اس میں اسی سابق طریقہ پر"من عبداللہ بن عمر الی عبداللہ بن مروان" لکھا، اس تحریر کو دیکھ کر درباریوں نے کہا کہ ابن عمرؓ نے حضورسے پہلے اپنا نام لکھا ہے،عبدالملک نے کہا کہ ابو عبدالرحمن کی ذات سے اتنا بھی بہت غنیمت ہے۔
<ref>(ابن سعد، قسم اول،:۱۱۲)</ref>