"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 305:
اسلام نے ان تمام امتیازات کو جن سے ایک انسان کی تحقیر اور دوسرے کی بیجا عظمت ظاہر ہو مٹادیا،ابن عمرؓ اس مساوات کا عملی نمونہ تھے، وہ ان تمام امتیازات کو جن سے مساوات میں فرق آتا ہو ناپسند فرماتے تھے،چنانچہ جہاں لوگ آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہوں نہ بیٹھتے، <ref>(ابن سعدق،اجز۴،:۱۲۰)</ref> اپنے غلاموں کو بھی مساوات کا درجہ دیدیا تھا اوران کو عزت نفس کی تعلیم دیتے تھے،دستور تھا کہ غلام تحریر میں پہلے آقا کا نام لکھتا،پھر اپنا ،انہوں نے اپنے غلاموں کو ہدایت کردی کہ جب مجھ کو خط لکھو تو پہلے اپنا نام لکھو، <ref>(اسد الغابہ:۱۲۸/۳)</ref> غلاموں کو دسترخوان پر ساتھ بٹھاتے ایک مرتبہ دسترخوان بچھا ہوا تھا، ادھر سے کسی کا غلام گذرا تو اس کوبھی بلا کر ساتھ بٹھایا، <ref>(مسلم:۳۶۹ /۱باب فضل النققہ علی العیال والمملوک)</ref> غلاموں کے کھانے پینے کا خیال بال بچوں کی طرح رکھتے تھے،ایک مرتبہ ان لوگوں کے کھانے میں تاخیر ہوگئی ،خانساماں سے پوچھا غلاموں کو کھانا کھلادیا، اس نے نفی میں جواب دیا برہم ہوکر فرمایا جاؤ ابھی کھلادو، انسان کے لیے یہ سب سے بڑا گناہ ہے کہ اپنے غلاموں کے خورد ونوش کا خیال نہ رکھے، <ref>(اصابہ:۱۰۸/۴)</ref> غلاموں کو نہ کبھی برابھلا کہتے تھے اورنہ کبھی ان کو مارپیٹ کرتے تھے،اگر کبھی غصہ کی حالت میں ایسا کوئی فعل سرزد ہوجاتا تو اس کو کفارہ کے طور پر آزاد کردیتے ،سالم کہتے ہیں کہ ابن عمرؓنے ایک مرتبہ کے علاوہ کبھی کسی غلام کو لعنت ملامت نہیں کی،ایک مرتبہ غصہ میں الع کہنے پائے تھے کہ زبان روک لی اور فرمایا میں ایسی بات زبان سے نکال رہا ہوں جو نہ نکالنی چاہئے ،ایک مرتبہ ایک غلام کو کسی بات پر ماربیٹھے،مارنے کے بعد اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کو آزاد کردیا۔
 
== تواضع وانکسار ==
 
اس مساوات کا دوسرا پہلو انکسار و تواضع ہے،جب تک یہ صفت نہ ہوگی،اس وقت تک مساوات کاجذبہ نہیں پیدا ہوسکتا، ابن عمرؓ میں یہ صفات بھی بدرجہ اتم موجود تھیں، اپنی تعریف سننا خود پرستی کا پہلا زینہ ہے،ابن عمرؓ اپنی تعریف سننا سخت ناپسند کرتے تھے،ایک شخص ان کی تعریف کررہا تھا، انہوں نے اس کے منہ میں مٹی جھونک دی اورکہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مداحوں کے منہ میں خاک ڈالا کرو،<ref>(مسند ابن حنبل:۹۴/۲)</ref> اپنے لیے معمولی انسانوں سے زیادہ شرف گوارانہ کرتے تھے،ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہا تم سبط ہو تم وسط ہو فرمایا: سبحان اللہ سبط بنی اسرائیل تھے اور امت وسط پوری امتِ محمد یہ ہے،ہم تو مضر کے درمیانی لوگ ہیں، اس سے زیادہ اگر کوئی رتبہ دیتا ہے تو جھوٹا ہے،بلا امتیاز ہر کس وناکس کو سلام کرتے ،بلکہ اسی ارادہ سے گھر سے نکلتے تھے،طفیل بن کعب جو روازانہ صبح و شام ان کے ساتھ بازار جایا کرتے تھے، بیان کرتے تھے کہ ابن عمرؓ بلا امتیاز تاجر مسکین اور خستہ حال سب کو سلام کرتے تھے،ایک دن مین نے ان سے پوچھا آپ بازار کیوں جاتے ہیں،حالانکہ نہ خرید و فروخت کرتے ہیں،نہ کسی جگہ بیٹھ تے ہیں،فرمایا صرف لوگوں کو سلام کرنے کی غرض سے <ref>(موطائے امام مالک،:۳۸۰،باب جامع السلام)</ref> اتفاق سے اگر کسی کو سلام کرنا بھول جاتے تو پلٹ کر سلام کرتے،<ref>(ابن سعد،جز۴،ق ۱،:۱۳۲)</ref> تواضع کا ایک مظہر حلم بھی ہے،ابن عمرؓ تلخ سے تلخ باتیں سن کر پی جاتے تھے،ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ کو پیہم گالیاں دینی شروع کیں،آپ نے صرف اس قدر جواب دیا کہ میں اورمیرے بھائی عالی نسب ہیں،پھر خاموش ہوگئے۔
<ref>(اصابہ ،جلد۴،:۱۰۸)</ref>
 
== مزید دیکھیے ==