"ابو ایوب انصاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب (14.9 core): + زمرہ:خلافت راشدہ میں مدینہ کے والی
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 11:
ابوایوب انصاری ان منتخب بزرگان مدینہ میں ہیں، جنھوں نے عقبہ کی گھاٹی میں جاکر پیغمبر اسلام کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی تھی۔ جب مکہ سے دولت ایمان لیکر پلٹے تو ان کی فیاض طبعی نے گوارا نہ کیا کہ اس نعمت کو صرف اپنی ذات تک محدودرکھیں ؛چنانچہ اپنے اہل و عیال، اعزہ واقربا اوردوست واحباب کو ایمان کی تلقین کی اوراپنی بیوی کو حلقہ اسلام میں داخل کیا۔
 
== حامل نبوت کی میزبانی ==
== میزبان رسول ==
خدانے اہل مدینہ کے قبول دعوت سے اسلام کو ایک مامن عطا کردیا اورمسلمان مہاجرین مکہ اوراطراف سے آ آ کر مدینہ میں پناہ گزین ہوئے ؛لیکن جو وجود مقدس قریش کی ستمگاریوں کا حقیقی نشانہ تھا وہ اب تک ستمگاروں کے حلقہ میں تھا،آخر ماہ ربیع الاول میں نبوت کے تیر ہویں سال وہ بھی عازم مدینہ ہوا، اہل مدینہ بڑی بیتابی سے آنحضرتﷺ کی آمد آمد کا انتظار کررہے تھے،انصار کا ایک گروہ جس میں حضرت ابو ایوبؓ بھی تھے روزانہ حرہ تک جو مدینہ سے ۳،۴ میل ہے صبح اٹھ کر جاتاتھااور دوپہر تک حضور کا انتظار کرکے نامراد واپس آتا تھا، اسی طرح یہ لوگ ایک روز بے نیل مرام واپس ہورہے تھے کہ ایک یہودی نے دور سے آنحضرتﷺ کو قرینہ سے پہچان کر انصار کو تشریف آوری کا مژدہ سنایا،انصار جن میں بنو نجار سب سے پیش پیش تھے ہتھیار سج سج کر خیر مقدم کے لئے آگے بڑھے۔
آنحضرت {{درود}} مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو ہر شخص میزبانی کا شرف حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ لیکن حضور {{درود}} نے فرمایا جس جگہ اونٹنی بیٹھے گی۔ وہیں آپ مقیم ہوں گے۔ اونٹنی ابو ایوب انصاری کے دروازے پر بیٹھی۔ ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ نبی اکرم نے نیچے قیام فرمایا اور سات ماہ تک یہاں رہے۔
مدینہ سے متصل قبا نامی ایک آبادی تھی،آنحضرتﷺ کچھ دنوں قبا میں رونق افروز رہے،اس کے بعد مدینہ کا عزم فرمایا،اللہ اکبر! مدینہ کی تاریخ میں یہ عجیب مبارک دن تھا، بنو نجار اور تمام انصار ہتھیاروں سے آراستہ دو رویہ صف بستہ تھے،روساء اپنے اپنے محلوں میں قرینے سے ایستادہ تھے،پردہ نشین خواتین گھر سے باہر نکل آئی تھیں،مدینہ کے حبشی غلام جو ش مسرت میں اپنے اپنے فوجی کرتب دکھارہے تھے اورخاندان نجار کی لڑکیاں دف بجا بجا کر "طلع البدرعلینا" کا ترانہ خیر مقدم گارہی تھیں غرض اس شان وشکوہ سے آنحضرتﷺ کا شہر میں داخلہ ہوا کہ و داع کی گھاٹیاں مسرت کے ترانوں سے گونج اٹھیں اور مدینہ کے روز نہائے دیوارنے اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھا جو اس نے کبھی نہ دیکھا تھا۔
 
اب ہر شخص منتظر تھا کہ دیکھئے میزبان دوعالمﷺ کی مہمانی کا شرف کس کو حاصل ہو، جدھر سے آپﷺ کا گذر ہوتا لوگ "اَھلا وسھلا مرحبا "کہتے ہوئے آگے بڑہتے اور عرض کرتے کہ حضورﷺ یہ گھر حاضر ہے ؛لیکن کارکنانِ قضا وقدر نے اس شرف کے لئے جس گھر کو تاکا تھا وہ ابو ایوبؓ کا کاشانہ تھا،آنحضرتﷺ نے لوگوں سے فرمایا" خلواسبیلھا فانھا مامورۃ" یعنی اونٹنی کو آزاد چھوڑدو ،وہ خدا کی جانب سے خود منزل تلاش کرلے گی،امام مالک کا قول ہے کہ اس وقت آنحضرتﷺ پر وحی کی حالت طاری تھی اور آپ اپنے قیام گاہ کی تجویز میں حکم الہی کے منتظر تھے، آخر ندائے وحی نے تسکین کا سرمایہ بہم پہنچایا اورناقہ قصوانے خانۂ ابوایوبؓ کے سامنے سفر کی منزل ختم کی ،حضرت ابوایوبؓ سامنےآئے اور درخواست کی کہ میرا گھر قریب ہے اجازت دیجئے اسباب اتارلوں، امیدواروں کا ہجوم اب بھی باقی تھا اور لوگوں کا اصرار اجازت سے مانع تھا،آخر لوگوں نے قرعہ ڈالا، ابو ایوبؓ کو اس فخر لازوال کے حصول سے جو مسرت ہوئی ہوگی اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام جب تک ان کے مکان میں تشریف فرما رہے، عموما ًانصار یا خود ابو ایوب پیغمبر اسلام کی خدمت میں روزانہ کھانا بھیجا کرتے تھے، کھانے سے جو کچھ بچ جاتا پیغمبر اسلام ابوایوب کے پاس بھیج دیتے تھے، ابو ایوبپیغمبر اسلام کی انگلیوں کے نشان دیکھتے اور جس طرف سے پیغمبر اسلام نے نوش فرمایا ہوتا وہیں انگلی رکھتے اور کھاتے، ایک دفعہ کھانا واپس آیا تو معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام نے تناول نہیں فرمایا، مضطربانہ خدمت میں پہنچے اورنہ کھانے کا سبب دریافت کیا، ارشاد ہوا کھانے میں لہسن تھا اور میں لہسن پسند نہیں کرتا، ابو ایوب نے کہا"فَإِنِّي أَكْرَهُ مَا تَكْرَہ" '''جو آپ کو ناپسند ہو یا رسول اللہ ﷺ میں بھی اس کو ناپسند کروں گا'''۔([[صحیح مسلم]])<ref>مسلم:2/197</ref>
آنحضرتﷺ حضرت ابوایوبؓ کے گھر میں تقریبا ۶ مہینے تک فروکش رہے ،اس عرصہ میں حضرت ابوایوبؓ نے نہایت عقیدت مندانہ جوش کیساتھ آپ کی میزبانی کی؛ لیکن آپﷺ نے اپنی اور زائرین کی آسانی کی خاطر نیچے کا حصہ پسند فرمایا، ایک دفعہ اتفاق سے کوٹھے پر پانی کا جو گھڑا تھا وہ ٹوٹ گیا چھت معمولی تھی ڈر تھا کہ پانی نیچے ٹپکے اورآنحضرتﷺکو تکلیف ہو،گھر میں میاں بیوی کے اوڑھنے کے لئے صرف ایک ہی لحاف تھا، دونوں نےلحاف پانی پر ڈال دیا کہ پانی جذب ہوکر رہ جائے،باایں ہمہ یہ تکلیف ان میزبانوں کے لئے کوئی بڑی زحمت نہ تھی کہ اسلام کی خاطر اس سے بڑی بڑی اورشدید تکلیفوں کے تحمل کا وہ عزم کرچکے تھے،تاہم یہ خیال کہ وہ اوپر اورخود حامل وحی نیچے ہے،ایسا سواہان روح تھا،جس نے حضرت ابوایوبؓ اورام ایوبؓ کو ایک دفعہ شب بھر بیدار رکھا اور دونوں میاں بیوی نے اس سو ادب کے خوف سے چھت کے کونوں میں بیٹھ کر رات بسر کی،صبح حضرت ابو ایوبؓ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوررات کا واقعہ عرض کیااور درخواست کی کہ حضورﷺ اوپر اقامت فرمائیں جان نثار نیچے رہیں گے؛چنانچہ آنحضرتﷺ نے درخواست منظور فرمالی اوربالاخانہ پر تشریف لے گئے۔
پیغمبر اسلامآنحضرتﷺ جب تک ان کے مکان میں تشریف فرما رہے، عمومافرمارہے،عموما ًانصار یا خود حضرت ابو ایوبایوبؓ پیغمبر اسلامآنحضرتﷺ کی خدمت میں روزانہ کھانا بھیجا کرتے تھے، کھانےتھے،کھانے سے جو کچھ بچ جاتا پیغمبرآپﷺ اسلامحضرت ابوایوبابوایوبؓ کے پاس بھیج دیتے تھے، حضرت ابو ایوبپیغمبرایوبؓ اسلامآنحضرتﷺ کی انگلیوں کے نشان دیکھتے اور جساورجس طرف سے پیغمبر اسلامآنحضرتﷺ نے نوش فرمایا ہوتا وہیں انگلی رکھتے اور کھاتے،کھاتے ایک،ایک دفعہ کھانا واپس آیا تو معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلامحضورﷺ نے تناول نہیں فرمایا،فرمایا،مضطربانہ مضطربانہخدمت خدمتاقدس میں پہنچے اورنہ کھانے کا سبب دریافت کیا، ارشادکیا،ارشاد ہوا کھانے میں لہسن تھا اور میں لہسن پسند نہیں کرتا،کرتا،حضرت ابو ایوبابوایوبؓ نے کہا"فَإِنِّي أَكْرَهُ مَا تَكْرَہتَكْرَه" '''جو آپ کو ناپسند ہو یا رسول اللہ ﷺ میں بھی اس کو ناپسند کروں گا'''۔([[صحیحگا۔ مسلم]])<ref>مسلم:2/197</ref>
<ref>(مسلم:۲/۱۹۷)</ref>
 
== مواخات ==