"ابو ایوب انصاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 34:
حضرت علیؓ کے بعد امیر معاویہؓ کی حکومت کا زمانہ آیا، عقبہ بنؓ عامر جہنی کی طرف سے مصر کے گورنر تھے،حضرت عقبہؓ کی امارت میں حضرت ابوایوبؓ کو دو مرتبہ سفر مصر کا اتفاق ہوا، پہلا سفر طلب حدیث کے لئے تھا،انہیں معلوم ہوا تھا کہ حضرت عقبہؓ کسی خاص حدیث کی روایت کرتے ہیں،صرف ایک حدیث کے لئے حضرت ابو ایوبؓ نے عالم پیری میں سفر مصر کی زحمت گوارا کی ،مصر پہنچ کر پہلے مسلمہؓ بن مخلد کے مکان پر گئے، حضرت مسلمہؓ نے خبر پائی تو جلدی سے گھر سے باہر نکل آئے اور معانقہ کے بعد پوچھا کیسے تشریف لانا ہوا، حضرت ابوایوبؓ نے فرمایا کہ مجھ کو عقبہ کا مکان بتا دیجئے، مسلمہ سے رخصت ہوکر عقبہ کے مکان پر پہنچے ان سے "سترالمسلم" کی حدیث دریافت فرمائی اورکہا کہ اس وقت آپ کے سوا اس حدیث کا جاننے والا کوئی نہیں، حدیث سن کر اونٹ پر سوار ہوئے اور سیدھے مدینہ منورہ واپس چلے گئے۔
<ref>(مسنداحمد:۴/۱۵۳)</ref>
 
== غزوۂ روم کی شرکت ==
دوسری بار غزوۂ روم کی شرکت کے ارادہ سے مصر تشریف لے گئے،فتح قسطنطنیہ کی آنحضرتﷺ بشارت دے گئے تھے امرائے اسلام منتظر تھے کہ دیکھئے پیشنگوئی کس جانباز کے ہاتھوں پوری ہوتی ہے،شام کے دارالحکومت ہونے کے سبب سے حضرت معاویہؓ کو اس کا سب سےزیادہ موقع حاصل تھا،چنانچہ ۵۲ھ میں انہوں نے روم پر فوج کشی کی، یزید بن معاویہ اس لشکر کا سپہ سالار تھا،دیگر اصحاب کبار کی طرح حضرت ابوایوبؓ بھی اس پرجوش فوج کے ایک سپاہی تھے،مصر وشام وغیرہ ممالک اسلام کے الگ الگ دستے تھے، مصری فوج کے سرعسکر گورنر مصر مشہور صحابی حضرت عقبہ بن عامرؓ جہنی تھے ،ایک دستہ نضالہ بن عبید کے ماتحت تھا، ایک جماعت عبدالرحمن بن خالد بن ولید کے زیر قیادت تھی ،رومی بڑے سروسامان سے لڑائی کے لئے تیار ہوئے اورایک فوج گراں مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے بھیجی ،مسلمانوں نے بھی مقابلہ کی تیاریاں کیں، ان کی تعداد بھی دشمنوں سے کم نہ تھی، جو ش کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک مسلمان رومیوں کی پوری پوری صف سے معرکہ آرا تھا، ایک صاحب کے جوش کی یہ کیفیت تھی کہ رومیوں کی صفوں کو چیر کر تنہا اندر گھس گئے اس تیور کو دیکھ کر عام مسلمانوں نے بیک آواز کہا کہ یہ صریح آیت قرآنی"لَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ" (اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) کے خلاف ہے،حضرت ابو ایوبؓ انصاریؓ آگے بڑھے اورفوج کو مخاطب کرکے فرمایا،لوگو! تم نے اس آیت شریفہ کے یہ معنی سمجھے؟ حالانکہ اس کا تعلق انصار کے ارادۂ تجارت سے ہے،اسلام کے امن و فراخی کے بعد انصار نے یہ ارادہ کیا تھا کہ گزشتہ سالوں میں جہاد کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو جو نقصانات اٹھانے پڑےہیں ان کی تلافی کی جائے،اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،پس ہلاکت جہاد میں نہیں؛بلکہ ترک جہاد اور فراہمی مال میں ہے۔
 
== وفات ==