"عمر بن عبد العزیز" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 322:
<ref>(سیرت عمر بن عبدالعزیز:۲۷۶)</ref>
 
=== یزید بن عبدالملک کو وصیت نامہ ===
 
زندگی سے مایوسی کے بعد اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک کو یہ وصیت نامہ لکھا:
میں تم کو یہ وصیت نامہ اس حالت میں لکھ رہا ہوں کہ مرض سے لاغر ہوگیا ہوں تم کو معلوم ہے کہ امورِ خلافت کے متعلق مجھ سے سوال کیا جائے گا اورخدا مجھ سے اس کا حساب لے گا اورمیں اس سے اپنا کوئی کام نہ چھپا سکوں گا،خدا خود فرماتا ہے:
فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِمْ بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ
ہم ان کو علم سے قصہ سناتے ہیں اور ہم غیر حاضر نہ تھے۔
اگر خدا مجھ سے راضی ہوگیا تو میں کامیاب ہوا اور ایک طویل عذاب سے نجات پائی اوراگر مجھ سے ناراض ہوا تو افسوس ہے میرے انجام پر، میں اس خدا سے جس کے سوا کوئی خدا نہیں دعا کرتا ہوں کہ مجھے اپنی رحمت سے دوزخ سے نجات دے اور اپنی رضا مندی سے جنت عطا کرے،تم کو تقویٰ اختیار کرنا چاہئے اوررعایا کا خیال رکھنا چاہئے؛کیونکہ میرے بعد تم بھی تھوڑے ہی دن زندہ رہو گے،تم کو اس سے بچنا چاہئے کہ تم سے غفلت میں ایسی لغزش سرزد ہوجائے جس کی تلافی نہ کرسکو۔
سلیمان بن عبدالملک خدا کا ایک بندہ تھا ،خدانے اسے وفات دی اور اس نے مجھ کو خلیفہ بنایا اورمیرے بعد تم کو ولیعہد مقرر کیا،میں جس حالت میں تھا، اگر وہ اس لیے ہوتی کہ میں بہت سی بیویوں کا انتخاب کروں اور مال ودولت جمع کروں، تو خدانے مجھ کو اس سے بہتر سامان دیئے تھے جو کسی بندہ کو دے سکتا تھا، لیکن میں سخت اور نازک سوال سے ڈرتا ہوں ،بجز اس کے کہ خدا میری دستگیری فرمائے۔
<ref>(سیرت عمر بن عبدالعزیز:۲۸۰)</ref>
 
 
سطر 351 ⟵ 358:
عمر بن عبد العزیز کے ماتحت ایک سرکاری ملازم نے ان سے شکوہ کیا تو آپ نے اُسے لکھ بھیجا: بھائی! میں تجھے دوزخیوں کا دوزخ میں ہمیشہ رہنا اور طویل جاگنا یاد دلاتا ہوں، اللہ کو چھوڑ کر کسی اور راستے کی طرف مت نکل پڑیں کہ وہ تیری انتہا ہو اور کوئی امید بھی نہ رہے۔ جب اُس نے وہ خط پڑھا تو سفر کرتا کراتا سیدھا آپ کے قدموں میں آ پڑا۔ آپ بولے: تو یہاں کیوں آ گیا؟ وہ بولا: آپ کے خط نے تو میرا دل دہلا دیا؛ اب میں اللہ سے ملنے تک عہدہ قبول نہیں کروں گا۔<ref>فتوحات مکیہ: جلد - 37</ref>
 
== شہادت ==
 
رجب 101ھ بمطابق جنوری 720ء میں آپ بیمار پڑ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ بنو امیہ نے آپ کے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفیاں دے کر آپ کو زہر دلوادیا تھا۔ آپ کو علالت کے دوران ہی اس کا علم ہو گیا تھا لیکن آپ نے غلام سے کوئی انتقام نہ لیا بلکہ اشرفیاں اس سے لے کر بیت المال میں داخل کروا دیں اور غلام کو آزاد کر دیا۔ زہر دینے کی وجوہات میں ایک تو یہ بات شامل تھی کہ آپ [[خلفائے راشدین]] کی مانند خلافت کے امور چلاتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان کی وجہ سے بنو امیہ اپنی مخصوص مالی لوٹ مار نہیں کر سکے۔ کیونکہ حضرت عمر بن عبد العزیز بیت المال کو مسلمانوں کی امانت سمجھتے تھے۔
 
طبیعت بہت خراب ہو گئی تو آپ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبد الملک کے نام وصیت لکھوائی جس میں انہیں تقوی{{ا}} کی تلقین کی۔ 25 رجب 101ھ بمطابق 10 فروری 720ء کو آپ نے اپنا سفر حیات مکمل کر لیا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 39 سال تھی۔ آپ کو [[حلب]] کے قریب دیر سمعان میں سپرد خاک کیا گیا جو [[شام]] میں ہے۔۔