"عمر بن عبد العزیز" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 51:
اس اہتمام سے تین سال میں عمارت بن کر تیار ہوئی ۹۱ھ میں ولید نے مدینہ جاکر اس کا معائنہ کیا اور عمر بن عبدالعزیز کی کارگزاری پر خوشنودی ظاہر کی۔
 
=== اطراف مدینہ کی مساجد کی تعمیر ===
مسجد نبوی کے علاوہ اپنے عہد گورنری میں اطراف مدینہ میں اوربہت سی مسجدیں بنوائیں ،آنحضرت ﷺ نے اطرافِ مدینہ میں جہاں جہاں نمازیں پڑھی تھیں مسلمانوں نے یاد گار کے طور پر وہاں معمولی مسجدیں بنالی تھیں، عمر بن عبدالعزیز نے اس قسم کی تمام مسجدوں کو منقش پتھروں سے تعمیر کرایا۔
<ref>(فتح الباری:۱/۴۷۲)</ref>
 
=== کنوؤں اورراستوں کی تعمیر ===
رفاہِ عام کے سلسلہ میں ولید کے حکم سے مدینہ میں بہت سے کنویں کھدوائے اور دشوار گزار پہاڑی راستے درست کرائے۔
 
=== معزولی ===
اگرچہ عمر بن عبدالعزیز نے تقرر کے وقت یہ شرط کرلی تھی کہ وہ گذشتہ والیوں کی طرح ظلم نہ کریں گے،لیکن بنی امیہ کا نظام کچھ ایسا تھا کہ یہ شرط قائم نہیں رہ سکتی تھی اس لیے ایک روایت یہ ہے کہ حجاج کی شکایت پر وہ معزول کردیئے گئے (طبری ) دوسرا بیان ہے کہ عبداللہ بن زبیرؓ کے صاحبزادے خبیب کو جو بنی امیہ کے مخالفین میں تھے،ولید کے حکم سے مجبور ہوکر سزادی جس کے صدمہ سے وہ مرگئے ،اس کی ندامت میں خود مستعفی ہوگئے۔
<ref>(سیرۃ عمر بن عبدالعزیز میں یہ واقعہ مفصل ہے)</ref>
 
=== بار{{زیر}} خلافت ===
 
718ء میں وابق کے مقام پر ( جو فوج کی اجتماع گاہ تھی ) سلیمان بن عبد الملک بیمار ہوا جب زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی تو اپنے وزیر رجاء بن حیوہ کو بلا کر اپنے جانشین کے بارے میں رائے لی۔ سلیمان نے رجاء کے مشورہ کے مطابق عمر بن عبد العزیز اور یزید بن عبد الملک کو علی الترتیب اپنا جانشین مقرر کرکے ایک وصیت نامہ لکھا اور مہر بند کرکے کعب بن جابر افسر پولیس کے حوالہ کیا کہ وہ اس وصیت نامہ پر بنو امیہ سے بیعت لے چنانچہ سلیمان کی زندگی ہی میں رجاء بن حیوۃ نے اس پر بیعت لی لیکن چونکہ سلیمان کو بنو امیہ کی طرف سے خطرہ لاحق تھا س لیے مرنے پہلے رجاء کو دوبارہ بیعت کی تاکید کی۔ اس دوران خیلفہ کی موت واقع ہو گئی رجاء کو خدشہ تکھا کہ بنو امیہ آسانی سے عمر بن عبد العزیز کی خلافت قبول نہ کریں گے اس لیے کچھ دیر کے لیے سلیمان کی موت کو چھپائے رکھا تاکہ آنکہ وابق کی [[جامع مسجد]] میں افراد بنو امیہ کو جمع کرکے دوبارہ بیعت لے لی اس کے بعد وصیت نامہ کھول کر پڑھا گیا۔ جب اعلان خلافت ہو رہا تھا تو اس وقت ’’انا اللہ ‘‘ کی دو آوازیں بیک وقت سنی گئیں۔ ایک ہشام کے منہ سے جسے حکومت کھو جانے کا غم تھا، دوسرے عمر بن عبد العزیز جنہیں حکومت مل جانے کا افسوس تھا۔ ہشام نے بیعت سے انکار کیا تو رجاء نے اسے ڈانٹ دیا اور کہا اٹھو بیعت کرو وگرنہ تمہارا سر قلم کر دوں گا۔ یہ کہہ کر عمر بن عبد العزیز کو پکڑ کر منبر پر کھڑا کر دیا۔
سطر 92:
میرے پاس کسی کی غیبت نہ کرے}}
 
=== خلفائے راشدین کا پہلا اسوہ ===
تختِ خلافت پر قد م رکھتے ہی عمر بن عبدالعزیز بالکل بدل گئے اوراب ناز پرور دہ عمر نے ابو ذر غفاریؓ اورابوہریرہؓ کا قالب اختیار کرلیا، سلیمان کی تجہیز وتکفین سے فراغت کے بعد حسب معمول عمر بن عبدالعزیز کے سامنے شاہی سواریاں پیش کی گئیں، انہوں نے پوچھا یہ کیا ہے؟عرض کیا گیا شاہی سواریاں، فرمایا،میرے لیے میرا خچر کافی ہے اورکل سواریاں واپس کردیں۔
<ref>(یہ تمام واقعات ابن سعد:۵/۲۴۷،۲۴۹ سے ماخوذ ہیں)</ref>
سطر 98:
<ref>(سیرت عمر بن عبدالعزیز:۵۲)</ref>
 
=== خلافت سے دستبرداری کا اعلان اورمسلمانوں کا اصرار ===
حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خلافت کی ذمہ داریوں کے بار گراں کا پورا احساس تھا،اگر نامزدگی کے وقت ان کو اس کا علم ہوگیا ہوتا تو وہ اسی وقت اپنا نام واپس لے لیتے، لیکن اب یہ بار پڑچکا تھا،تاہم انہوں نے ایک مرتبہ اس سے سبکدوش ہونے کی کوشش کی اورلوگوں کو جمع کر کے تقرر کی۔
لوگو: میری خواہش اورعام مسلمانوں کی رائے لیے ہوئے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داریوں میں مبتلا کیا گیا ہے، اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمہاری گردن میں ہے میں خود اس کو اتار ے دیتا ہوں، تم جس کو چاہو اپنا خلیفہ منتخب کرلو۔
سطر 110:
<ref>(ابن سعد:۵/۲۵۰،۲۵۱)</ref>
 
=== عبد العزیز بن عبدالملک کی بیعت ===
یہاں دمشق میں یہ سب کچھ ہوچکا تھا،لیکن عبدالعزیز بن عبد الملک کو جو کہیں باہر تھا ان واقعات کی خبر نہیں ہوئی تھی،ا س لیے سلیمان کی موت کی خبر سن کر اس نے اپنے ہمراہیوں سے اپنی بیعت لے لی اوردمشق کے ارادہ سے بڑھا ،راستہ میں اسے سلیمان کی وصیت اورعمر بن عبدالعزیز کی بیعت کا حال معلوم ہوا،یہ سن کر وہ سیدھا ان کے پاس پہنچا، ان کو اس کے بیعت لینے کی خبر ہوچکی تھی،انہوں نے اس سے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنی بیعت لے کردمشق میں داخل ہونا چاہتے تھے،عبدالعزیز نے کہا مجھے اس کا علم نہ تھا کہ سلیمان نے آپ کو خلیفہ نامزد کردیا ہے، اس لیے مجھے خوف تھا کہ لوگ خزانہ نہ لوٹ لیں، عمر بن عبدالعزیزؓ نے فرمایا،اگر لوگ تمہارے ہاتھ پر بیعت کرلیتے اورتم بار خلافت کو سنبھال لیتے تو میں تم سے جھگڑا نہ کرتا اور اپنے گھر میں بیٹھ جاتا، عبدالعزیز نے کہا آپ کے ہوتے ہوئے میں دوسرے کا خلیفہ ہونا پسند ہی نہیں کرتا اورآپ کے ہاتھوں پر بیعت کرلی۔
<ref>(ایضاً)</ref>
 
=== احساس فرض اور طرز زندگی میں تبدیلی ===
 
خلافت کا بار گراں اٹھاتے ہی فرض کی تکمیل کے احساس نے آپ کی زندگی بالکل بدل کر رکھ دی۔ وہی عمر جو نفاست پسندی اور خوش لباسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جو خوشبو کے دلدادہ تھے، جن کی چال امیرانہ آن بان کی آئینہ دار تھی، جن لباس فاخرا تھا اب سراپا عجز و نیاز تھے۔ سلیمان کی [[تجہیز و تکفین]] کے بعد پلٹے تو سواری کے لیے اعلٰی ترین گھوڑے پیش کیے گئے مگر حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان پر سوار ہونے سے انکار کر دیا اور کہا ’’میرے لیے میر خچر کافی ہے‘‘ اور انہیں واپس [[بیت المال]] میں داخل کرنے کا حکم دیا۔ جب افسر پولیس نیزہ لے کر آگے آگے روانہ ہوا تو اسے ہٹا دیا اور کہا کہ ’’ میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں‘‘ پھر جب سلیمان کے اثاثہ کو ورثا میں تقسیم کرنے کی تجویز کی تو آپ نے سارے سامان کو بیت المال میں داخل کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ واپسی کے وقت دستور کے مطابق خیال تھا کہ وہ قصر خلافت میں ضرور داخل ہوں گے لیکن عمر اس کی بجائے یہ کہہ کر کہ ’’ میرے لیے میرا خیمہ کافی ہے‘‘ اندر داخل ہو گئے۔ آپ کی ملازمہ نے چہرہ بشرہ دیکھ کر اندازہ لگایا کہ آپ پریشان ہیں۔ پوچھا تو کہا:
سطر 123 ⟵ 124:
ہر وقت [[امت مسلمہ]] کے حقوق کی نگہداشت اور اللہ تعالٰی کے احکامات کی تعمیل اور نفاذ کی فکر دامن گیر رہتی جس کی وجہ سے ہمیشہ چہرے پر پریشانی اور ملال کے آثار دکھائی دیتے۔ اپنی بیوی فاطمہ کو حکم دیا کہ تمام زروجواہر بیت المال میں جمع کرا دو ورنہ مجھ سے الگ ہو جاؤ۔ وفا شعار اور نیک بیوی نے تعمیل کی۔ گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازمہ مقرر نہ تھی تمام کام ان کی بیوی خود کرتیں۔ الغرض آپ کی زندگی درویشی اور فقر و استغنا کا نمونہ کر رہ گئی۔ آپ کی تمام تر مساعی اور کوششیں اس امر پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ ایک بار پھر سنت فاروقی اور عہد فاروقی کی یاد تازہ کر دیں۔ آپ اس پاکیزہ زندگی اور کا رہائے نمایاں کی بدولت ہی پانچویں خلیفہ راشد قرار پائے۔ آپ نے [[اہل بیت]] کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا۔ ان کی ضبط کی ہوئی جائیدایں ان کو واپس کر دی گئیں۔ حضرت علی پر جمع خطبہ کے دوران لعن طعن کا سلسلہ ختم کر دیا۔ اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ کر دیا۔ احیائے شریعت کے لیے کام کیا۔ بیت المال کو خلیفہ کی بجائے عوام کی ملکیت قرار دیا۔ اس میں سے تحفے تحائف اور انعامات دینے کا طریقہ موقوف کر دیا۔ ذمیوں سے حسن سلوک کی روایت اختیار کی۔ اس کے علاوہ معاشی اور سیاسی نظام میں اور بھی اصلاحات کیں۔
 
=== اقدامات ===
 
آپ نے بار{{زیر}} [[خلافت]] سنبھالنے کے بعد منادی کروادی کہ لوگ اپنے مال و جائداد کے بارے میں اپنی شکایتیں پیش کر دیں جس کے بارے میں ان کا دعوی{{ا}} ہے کہ اسے زبردستی ہتھیالیا گیا ہے۔
سطر 367 ⟵ 368:
<ref>(تذکرہ الحفاظ:۱/۱۰۶)</ref>
 
=== تفسیر ===
 
تفسیر قرآن میں نہایت وسیع نظر تھی،بڑے بڑے علماء قرآنی مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے، ایک مرتبہ حجاز اورشام کے کچھ علماء نے آپ کے صاحبزادے عبدالملک سے کہا کہ اپنے والد سے قرآن کی اس آیت:
أَنَّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ
<ref>(سبا:۵۲)</ref>
وہ دور سے کیونکر پاسکتے ہیں۔
کے متعلق پوچھو کہ اس سے کیا مراد ہے،انہوں نے پوچھا،حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا کہ اس سے مراد وہ توبہ ہے جس کی خواہش اس وقت کی جائے جس وقت انسان اس پر قادر نہ ہو۔
<ref>(سیرۃ عمر بن عبدالعزیز:۲۸)</ref>