"عمر بن عبد العزیز" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 400:
<ref>(ایضاً:۲۳۸)</ref>
 
=== علماء کی قدر دانی ===
 
گذشتہ خلفاء کی بزمِ طرب کی زینت شعراء خطباء اورادیبوں سے تھی،لیکن عمر بن عبدالعزیز کا ذوق ان سے مختلف تھا،اس لیے ان کے زمانہ میں شعراکا ہجوم چھٹ گیا اوراس کی جگہ علمائے دین نے لے لی۔
ان کی تخت نشینی کے بعد حسب معمول حجاز اورعراق کے مشہور شعراء میں نصیب جزیر،فرزدق،احوص،کثیر اوراخطل،قصیدے لے لے کر پہنچے اورعرصہ تک ٹھہرے رہے لیکن کسی کو باریابی کی اجازت نہیں ملی،ان کے بجائے علماء فقہاء کو بلاتے تھے اوران کی قدر دانی کرتے تھے،شعراء کی یہ کس مپرسی دیکھ کر ایک دن جریر نے عون بن عبداللہ کے ذریعہ جو ایک ممتاز فقیہ تھے،یہ اشعار کہہ کر حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں بھیجے:
یا یھا القاری المرخی عمامتہ ھذا زمانک انی ندمضی زمنی
اے وہ قاری جس کے عمامہ کا شملہ لٹک رہا ہے یہ تیرا زمانہ ہے،میرا زمانہ گزر گیا
ابلغ خلیفتنا ان کنت لاقیہ انی لدی البابکا المصفورفی قرن
اگر ہمارے خلیفہ سے ملاقات ہو تو میرا یہ پیغام پہنچادے کہ میں دروازہ پر بیڑیوں میں جکڑا ہوں
عون بن عبداللہ نے عمر بن عبدالعزیز سے کہا کہ جریر سے میری آبرو بچائیے،آپ نے جریر کو باریابی کی اجازت دی،اس نے قصیدہ سنایا،جس میں اہل مدینہ کے مصائب مشکلات کا حال تھا،حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے ان کے لیے کپڑا،غلہ اورنقد روپیہ بھیجا اور جریر سے پوچھا بتاؤ تم کس جماعت میں سے ہو، مہاجرین میں ،انصار میں، ان کے اعزہ میں ،مجاہدین میں، اس نے کہا کسی میں نہیں، فرمایا پھر مسلمانوں کے مال میں تمہارا کیا حق ہے،اس نے کہا خدا نے میرا حق مقرر کیا ہے،بشرطیکہ آپ اس کونہ روکیں میں ابن سبیل (مسافر) ہوں دور دراز کا سفر کرکے آپ کے آستانہ پر ٹھہراہوں،آپ نے فرمایا،خیر اگر تم میرے پاس آئے ہو تو میں اپنی جیب سے تم کو بیس روپیہ دیتا ہوں،اس حقیر رقم پر خواہ میری تعریف کرویا مذمت،جریر نے اسے بھی غنیمت سمجھا اوراسے لے کر باہر آیا، دوسرے شعراء نے لپک کر پوچھا،کہو ابو حرزہ کیا معاملہ رہا، اس نے جواب دیا اپنا اپنا راستہ لو یہ شخص شاعروں کو نہیں ؛بلکہ گداگروں کو دیتا ہے۔
مگر علماء فقہاء اورقراء کی بڑی قدردانی تھی،ان کو دور دور سے بلاکر خواص میں داخل کرتے تھے۔
<ref>(ایضاً:۱۶۶)</ref>