"عدی بن حاتم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏یمن سے فرار: درستی املا
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ اینڈرائیڈ ایپ ترمیم)
درستی کے لیے
سطر 2:
عدی بن حاتم مشہور سخی [[حاتم طائی]] کے بیٹے تھے۔ آپ اپنے قبیلہ طی کے سردار تھے۔ ابتدا میں بت پرست تھے لیکن بعد میں مسیح مذہب قبول کر لیا اور آخر میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ آپ اور حضرت علی کے تعلق بہت اچھے تھے اس لیے [[جنگ جمل]] ، [[جنگ صفین]] اور جنگ نہروان میں حضرت علی کے دست راست رہے۔
 
=== نام و نسب ===
آپ کا اسم گرامی '''عدی''' کنیت '''ابو ظریف''' اور بعض کے نزدیک '''ابو وہب''' تھی۔ آپ عرب کے مشہور سخی حاتم طائی کے بیٹے تھے۔
سلسلہ نسب اس طرح ہے
* عدی بن حاتم بن عبد اللہ بن سعد بن حشرج بن [[امرء القیس]] بن عدی بن ابی اخزام بن ربیعہ بن جرول بن ثعل بن عمرو بن غوث بن طے طائی <ref>اسد الغابة فی معرفة الصحابة مصنف عزالدین بن الاثیر ابی الحسن علی بن محمد الجزری اردو متراجم مولانا محمد الشکور فاروقی لکھنوی جلد دوم حصہ ششم صفحہ 535</ref>
 
=== ابتدائی حالات ===
حضرت عدی کا خاندان مدت سے قبیلہ طے پر حکمرانی کرتا چلا آ رہا تھا اور ظہور اسلام کے وقت وہ خود قبیلہ کے سردار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلسل فتوحات حاصل ہوئیں اور اس کے ساتھ آپ کا اثر و اقتدار اور اسلام کا دائرہ وسیع ہونے لگا۔ عدی کو فکر لاحق ہوئی کیونکہ ایک طرف حکمرانی کا غرور اس کو اسلام کے سامنے سر جھکانے سے روک رہا تھا دوسری طرف اس سیلاب کو روکنا بھی اس کے بس میں نہ تھا اس لیے وہ انتظار میں تھا کہ جب اسلامی لشکر حملہ کرے گا میں وطن چھوڑ کر بھاگ جاؤں گا۔
<ref>سیرہ الصحابہ جلد اول از مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی جلد چہارم حصہ ہفتم صفحہ 385</ref>
عدی ابتدا میں بت پرست تھے اور قبیلہ طے کے بت '''فلس''' کو خدا مانتے تھے لیکن جب اس بت کی بے بسی کا یقین ہوا تو اس نے [[بت پرستی]] کو چھوڑ کر عیسائیت کو قبول کر لیا تھا۔ <ref>سیرت انسائیکلو پیڈیا تصنیف و تالیف حافظ محمد ابراہیم طاہر گیلانی، حافظ عبد اللہ ناصر مدنی اور حافظ محمد عثمان یوسف جلد نہم صفحہ 417 اور 418</ref>
 
=== یمن سے فرار ===
عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم کا سردار تھا۔ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی خبر سنی تو مجھے آپ سے شدید نفرت ہو گئی۔ پورے عرب میں مجھ سے بڑھ کر آپ سے نفرت کرنے والا کوئی نہ تھا۔ میں عیسائی مذہب کا پیرو کار تھا۔ خود کو بڑا دین دار خیال کرتا تھا۔ اپنی قوم سے لوٹ کے مال کا چوتھا حصہ وصول کرتا تھا۔ سردار ہونے کے ناتے میں ہی اپنا حق سمجھتا تھا۔ جیسے جیسے رسول اللہ کی کامیابیوں کی خبر میں مجھے ملتیں، میری نفرت و دشمنی میں اضافہ ہو جاتا۔ میں نے اپنے ایک عربی غلام سے کہا تیرا بھلا ہو، میرے لیے چند موٹی تازی سدھائی ہوئی اونٹنیاں تیار رکھنا ۔ وہ میرے اونٹوں کا چرواہا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ تیار شدہ اونٹنیاں میرے قریب رکھنا۔ جیسے ہی تمھیں خبر ملے کہ جیشِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے علاقے کا رخ کیا ہے تو تم مجھے اطلاع کر دینا۔ میرے علم پر اس نے چند خوبصورت سواریاں تیار کر لیں ۔ ایک دن کے وقت وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اے عدی! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر کے حملہ آور ہونے پر تم نے اپنی حفاظت کا جو پروگرام بنایا ہے، اس پر ابھی عمل کر لو تو بہتر ہوگا۔ میں نے کچھ جھنڈے دیکھے ہیں ۔ میں نے ان کے بارے میں معلوم کیا تو مجھے بتایا گیا کہ بیشکر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ یہ سن کر میں نے اسے کہا: جاؤ جلدی سے اونٹیاں لے آؤ۔ وہ گیا اور اونٹنیاں لے آیا۔ میں نے اپنے بیوی بچوں کو ان پر سوار کیا اور شام کی طرف بھاگ نکلا۔
میرا ارادہ تھا کہ میں اپنے ہم مذہب عیسائیوں کے پاس چلا جاتا ہوں جاتے ہوئے میں اپنی بہن کو یہیں چھوڑ گیا۔ میں شام پہنچا اور وہاں رہنے لگا۔ میرے جانے کے بعد رسول اللہ کے لشکر آئے اور میرے قبیلے کو فتح کر کے قیدی ساتھ لے گئے ۔ ان قیدیوں میں حاتم طائی کی سفانہ بنت حاتم بھی تھی ۔ عدی بن حاتم کی بہن نے نبی کریم سلام سے رہائی کی اپیل کی جو آپ نے منظور کر لی ۔ آپ نے نہایت عزت و اکرام کے ساتھ اسے رخصت کیا۔
سطر 19:
بہن کا مشورہ سن کر میں نے سوچا کہ مجھے ایک بار ضرور مد ینہ حاضر ہونا چاہیے۔ اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹے ہوئے تو مجھے کیا نقصان ہے۔ اگر وہ سچے ہوئے تو میں جان لوں گا اور ان کی پیروی کرلوں گا۔ لہذا میں شام سے نکالا اور مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
 
=== بارگاہ رسالت میں ===
عدی بن حاتم کہتے ہیں جب میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صحابہ کرام کے ساتھ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ عدی بن حاتم ہے۔ میں بغیر کسی امان نامے یا صلح نامے کے حاضر ہو گیا تھا۔ رسول اللہ سلام نے میرا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے لیا۔ آپ اس سے پہلے صحابہ کو یہ فرما چکے تھے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی اس (عدی) کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا۔
پھر آپ مجھے لے کر اپنے حجرہ کی طرف چل پڑے۔ اتنے میں ایک عورت اپنے بچے کو لے کر حاضر ہوئی ۔ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ! میں نے ایک ضروری گزارش کرنی ہے۔ آپ اس عورت کی التجا سنے کے لیے وہیں رک گئے۔ وہ دیر تک آپ کو اپنا مسئلہ بیان کرتی رہی اور آپ سنتے رہے، پھر آپ نے اس کی حاجت پوری کی اور مجھے لے کر اپنے گھر آگئے۔ میں نے دل میں سوچا ، الله کی قسم! یہ بادشاہ نہیں ہیں ۔ بھلا بادشاہوں میں اتنا صبر و حوصلہ اور عجز و انکسار کہاں؟
سطر 40:
عدی بن حاتم نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے کھل اٹھا۔ آپ نے عدی کو ایک انصاری صحابی کے ہاں ٹھہرایا۔ <ref>سیرت انسائیکلو پیڈیا تصنیف و تالیف حافظ محمد ابراہیم طاہر گیلانی، حافظ عبد اللہ ناصر مدنی اور حافظ محمد عثمان یوسف جلد نہم صفحہ 419 تا 423</ref>
 
=== امارت ===
رسول اللہ ہر نئے مسلمان سے اس کے رتبہ کے مطابق کام لیتے تھے اور اسلام سے پہلے جس کا جو رتبہ تھا اس کو برقرار رکھتے تھے۔ عدی قبیلہ طے کے حکمران تھے اس لیے اسلام کے بعد آنحضرت نے ان کو طے کی امارت پر قائم رکھا۔ <ref>سیرہ الصحابہ جلد اول از مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی جلد چہارم حصہ ہفتم صفحہ 387</ref>
 
=== عہد صدیقی ===
بنی اسد میں ایک شخص طلیحہ تھا حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد اس کے دماغ میں نبوت کا خبط سمایا۔ چنانچہ اس نے اپنی قوم میں نبوت کا دعوی کر دیا۔ بنی اسد سب اس کے تابع ہو گئے۔ بنی اسد اور بنی طے کے درمیان معاہدہ دوستی تھا لہذا انہوں نے بھی اپنے حلیف کا ساتھ دیا اور قبیلہ غطفان کے بھی بہت سے لوگ ان کے شریک ہو گئے۔ طلیحہ نے اس عظیم الشان فوج کو لے کر نجد میں چشمہ بزاخہ پر پڑاؤ ڈالا۔
حضرت [[خالد بن ولید]] طلیحہ کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے۔ حضرت عدی بن حاتم طائی جو قبیلہ بنی طے کے سرداروں میں شمار ہوتے تھے اس زمانہ میں مدینہ میں مقیم تھے انہوں نے حضرت ابو بکر سے عرض کیا مجھے اجازت دیجیے کہ میں اپنے قبیلہ کو سمجھا بجھا کر اس فتنہ سے نکال لوں۔ حضرت ابو بکر صدیق نے اجازت دیدی۔ حضرت عدی کی کوششوں سے ان کے قبیلہ کے تمام افراد طلیحہ سے علاحدہ ہو گئے اور پھر یہی کوششیں انہوں نے قبیلہ جدیلہ میں بھی کی اور یہاں بھی انہیں کامیابی ہوئی۔
سطر 49:
جب طلیحہ نے دیکھا کہ شکست لازمی ہے تو اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر شام کی طرف بھاگ گیا اور بعد میں کفر سے توبہ کر کے دوبارہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ طلیحہ نے اس کے بعد فتوحات عراق کے موقع پر بہت بہادری دکھائی اور اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی۔ <ref>تاریخ ملت تالیف مفتی زین العابدین سجاد مییرٹھی اور مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر الہ آبادی جلد اول صفحہ 172 اور 173</ref>
 
=== عہد فاروقی ===
13ھ میں جب حضرت عمر فاروق نے عراق کی فتوحات کی تکمیل کے لیے تمام ممالک محروسہ سے فوجیں طلب کیں تو عدی بن حاتم بھی اپنے قبیلہ کے آدمیوں کو لے کر شرکت جہاد کے لیے پہنچے اور امیر عسکر مثنی کے ساتھ حیرہ کے معرکہ میں شریک ہوئے۔ اس معرکہ میں مسلمانوں کو کامیابی ہوئی اور ایرانیوں نے شکست کھائی۔ اس کے بعد نہر مثنی پر صف آرائی ہوئی اس میں بھی عدی شریک تھے اور ایرانی ناکام رہے اس کے بعد جسر کے معرکہ میں شرکت کی اس میں مثنی کی غلطی سے مسلمانوں کو شکست ہوئی ۔ اس سلسلہ کی سب سے بڑی جنگ قادسیہ میں بھی عدی بن حاتم نے داد شجاعت دکھائی۔ سب سے آخر میں کوثی اور مدائن پر فوج کشی ہوئی ۔ دی اس میں بھی ہمراہ اور مدائن کے فاتحین میں تھے ان کے سامنے کسری کا خزانہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے آنحضرت کی پیش گوئی کی تصدیق دیکھ لی۔ ان فتوحات کے علاوہ تستر اورنهاوند کے معرکوں میں بھی شریک تھے ۔ شام کی فتوحات میں بھی خالد بن ولید کے ہمراہ تھے ۔ غرض اس عہد کی اکثر لڑائیوں میں انہوں نے شرکت کی سعادت حاصل کیا۔
ایک مرتبہ حضرت عدی عمرفاروق کے زمانہ میں مدینہ آئے اور ان سے مل کر پوچھا آپ نے مجھے پہچانا۔ فرمایا پہچانا کیوں نہیں تم اس وقت ایمان لائے جب لوگ کفر میں مبتلا تھے ، تم نے اس وقت ان کو پیا جب لوگ اس کے کرتے اورتم نے اس وقت حق کو پہچانا جب لوگ دھوکا دے رہے تھے اور تم اس وقت آئے جب لوگ پیٹھ پھیر رہے تھے۔ سب سے پہلا صدقہ جس نے رسول اللہ کے اصحاب کے چہروں کو بشاش کیا تمہارے قبیلہ طےکا تھا۔
 
=== عہد مرتضوی ===
حضرت عثمان" کے طرزعمل سے عدی کو اختلاف تھا اس لیے ان کے زمانہ میں بالکل خاموش رہے۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی اور بعض دوسرے اکابر میں اختلاف ہوا تو عدی نے حضرت علی کی نہایت پرجوش حمایت کی چنانچہ جنگ جمل میں آپ کے ساتھ تھے۔ بصرہ کے قریب جب حضرت علی نے اپنی فوج کو مرتب کیا تو قبیلہ طے کا علم بردار عدی کو بنایا۔ اور وہ جنگ جمل میں حضرت علی کی حمایت میں نہایت جانبازی کے ساتھ اس معرکہ میں لڑے۔ ان کی ایک آنکھ بھی جنگ جمل میں کام آئی۔ جنگ جمل کے بعد جنگ صفین میں بھی اسی جوش وخروش کے ساتھ حضرت علی کی حمایت میں نکلے۔ اس جنگ میں بنو قضاعہ کی کمان عدی بن حاتم کے ہاتھوں میں تھی۔ صفین کا معرکہ جاری رہا شروع میں فریقین کے بہادر ایک ایک دستہ لے کر میدان میں اتر تے تھے ایک دن حضرت خالد کے صاحبزادے شامیوں کی جانب سے میدان میں اتر ے حضرت علی کی جانب سے عدی ان کے مقابلہ کو نکلے اور صبح سے شام تک مقابلہ کرتے رہے۔
ایک دن جب گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی اور عراقی فوجیں پراگندہ ہو رہی تھیں حضرت علی علاحدہ ایک دوست کو لیے ہوئے معرکہ آرا تھے۔ عدی نے حضرت علی کو دیکھا تو آپ کی تلاش میں نکلے اور ڈوھونڈ کر عرض کیا کہ اگر آپ صحیح وسالم ہیں تو معرکہ سر کر لیا زیادہ دشوارنہیں ہے۔ میں آپ کی تلاش میں لاشوں کو روندتا ہوا آپ تک پہنچا ہوں۔ اس دن سب سے زیا دہ ثابت قدمی عدی نے دکھائی تھی۔ ان کا ماتحت دستہ ربیعہ اس بہادری سے لڑا کہ حضرت علی کو کہنا پڑا کہ ربیعہ میری زرہ اور میری تلوار ہیں۔
جنگ صفین کے بعد نہروان کا معرکہ ہوا اس میں بھی عدی حضرت علی کے دست راست تھے۔ غرض شروع سے آخر تک وہ برابر حضرت علی کے ساتھ جان نثارانہ شریک رہے۔
 
=== وفات ===
مختیار ثقفی کے خروج تک عدی بن حاتم کی زندگی کا پتہ چلتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ جنگ صفین کے بعد 30 سال تک زندہ رہے مگر اس تیس سالہ زندگی کے واقعات پردہ خفا میں ہیں ۔ اس کی وجہ ہے کہ وہ حضرت علی کے فدائیوں میں تھے اور آپ کے بعد انہوں نے گوشہ نشینی کی زندگی اختیارکرلی تھی۔ ابن سعد کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوفہ میں عزلت کی زندگی بسر کرتے تھے اور یہیں 67 ھ میں وفات پائی۔
 
=== فضل و کمال ===
عدی بن حاتم کو آخری زمانہ میں شرف باسلام ہوئے تا ہم چونکہ آنحضرت اور شیخین کے پاس برابر آتے جاتے رہتے تھے۔ خصوصا حضرت علی کے ساتھ ان کے تعلقات بہت زیادہ تھے اس لیے وہ مذہبی علوم سے بے بہرہ نہ تھے ان کی 66 روایتیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے چھ متفق علیہ ہیں اور 3 میں [[امام بخاری]] اور2 میں [[امام مسلم]] منفرد ہیں۔
آپ کے تلامذہ میں عمرو بن حریت ، عبد اللہ بن معقل ، معقل تمیم بن طرفہ ، خثیمہ بن عبد الرحمن ، محل بن خلیفہ طائی ، عامر الثعبی ، عبد اللہ بن عمرو ، ہلال بن منذر ، سعید بن جبیر ، قاسم بن عبد الرحمن ، عبادہ بن جیش وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
* علامہ [[ابن عبد البر]] نے لکھا ہے وہ (عدی بن حاتم) اپنی قوم کے سردار اور معززین میں تھے ، خطیب ، حاضر جواب ، فاضل اور کریم تھے۔
 
=== مذہبی زندگی ===
یوں تو عدی بن حاتم کی زندگی بحیثیت ایک صحابی کے خالص مذہبی تھی لیکن نماز اور روزوں کے ساتھ خاص انہماک تھا۔ نماز کے لیے یہ اہتمام تھا کہ ہر وقت باوضو رہتے تھے۔ کبھی اقامت کے وقت وضو کی ضرورت نہیں پڑی۔ ہروقت نماز میں دل لگارہتا تھا اور نہایت اشتیاق سے وہ نماز کے وقت کا انتظار کرتے تھے۔
 
=== سخاوت و فیاضی ===
سخاوت اور فیاضی آپ کو ورثہ میں ملی تھی۔ آپ کا دروازہ ہر وقت ہر شخص کے لیے کھلا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ اشعث بن قیس نے دیگیں مانگ بھجیں۔ عدی نے اسے بھروا کر بھیجا۔ اشعت نے کہلا بھیجا میں نے خالی مانگی تھیں۔ انہوں نے جواب کہلا بھیجا کہ میں عاریت بھی خالی دیگیں نہیں دیتا۔
ایک مرتبہ ایک شاعر سالم بن وارہ نے آ کر کہا میں نے آپ کی مدح میں اشعار کہے ہیں ۔ عدی نے کہا ذرا رک جاؤ میں اپنے مال و اسباب کی تفصیل تم کو بتا دوں ،اس کے بعد سنانا۔ میرے پاس ایک ہزار بچے والے مویشی، دو ہزار درہم ، 3 غلام اور ایک گھوڑا ہے اس کے بعد شاعر نے مدحیہ قصیدہ سنایا