"تبع تابعین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 8:
(تبع تابعین)۔
عام علمائے اُمت (شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے غالباً بعض اعتراضات سے بچنے کے لیے پہلے ٹکڑے سے عہدِ نبوی اور دوسرے سے عہد صدیقی اور تیسرے سے عہد فاروقی مراد لیا ہے) نے ارشادِ نبوی کے پہلے ٹکڑے کا مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس جماعت کواور دوسرے اور تیسرے ٹکڑے کا مصداق تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے برگزیدہ گروہ کوقرار دیا ہے۔
اس مشہود بالخیرقرون ثلثہ میں صرف خلافتِ راشدہ کا تیس سالہ مبارک عہد ایسا گذرا ہے جن میں عہد نبوی کی تمام سعادتیں اور برکتیں یایوں کہیے کہ اسلام کی تمام اخلاقی وقانونی خوبیاں ایک تسلسل کے ساتھ حکومت ومعاشرہ دونوں میں مشاہد طور پرموجود تھیں، جن کوہرآیندہ وردندایک سرسری نگاہ میں دیکھ سکتا تھا؛ چنانچہ اس عہد سعید میں جتنی کم سیاسی اور معاشرتی برائیاں پیدا ہوئیں، دنیا کی سیاسی ومذہبی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی؛ لیکن اس عہد سعید کے بعد اتفاق سے حکومت کی باگ ڈور ایسک لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی جواپنی بہت سی انفرادی واسلامی خصوصیات کے باوجود سیاسی میدان اور حکومت کے ایوان میں اپنی اجتماعی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کوکماحقہ ادا نہ کرسکے، جس کے نتیجہ میں بہت جلد اسلامی خلافت شخصی حکومت میں تبدیل ہوگئی؛ گونام ابھی خلافت ہی تھا؛ مگراس میں خلافت کی روح باقی نہیں تھی، عہد راشدہ میں سیاست مذہب واخلاق کے تابع تھی اور اب مذہب واخلاق پرسیاست کوترجیح دی جانے لگی تھی، اس سے پہلے خلافت کسی خاندان کی میراث نہ تھی اور اب کسی نہ کسی خاندان کے لیے مخصوص ہوگئی تھی، حضرات خلفائے راشدین معاشرہ کی اصلاح وفلاح کوحکومت کی سب سے بڑی بلکہ ذاتی ذمہ داری سمجھتے تھے اور اب حکومت کا قیام اور اس کی بقا کے لیے سیاسی جوڑتوڑ خلفاء کا سب سے بڑا کام رہ گیا تھا؛ غرض یہ کہ اس تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ معاشرہ میں بعض نئی نئی اور بعض دبی ہوئی پرانی برائیاں پھراُبھرنے لگیں اور بہت سے سوئے ہوئے فتنے نئے نئے قالب میں پھرسراُٹھانے لگے؛ لیکن ایوانِ حکومت سے باہر ابھی ممتاز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بڑی تعداد اور حضرات تابعین رحمہم اللہ کی پوری جماعت موجود تھی، جوعہد نبوی اور عہد راشدہ کی تمام سعادتوں، برکتوں اور اسلام کی انفرادی واجتماعی خصوصیتوں کوابھی تک اپنے سینوں سے لگائے ہوئے تھی، جس کے دل میں جہاد کی تڑپ اور اقامت دین کا جذبہ موجود تھا، جوامربالمعروف ہی کونہیں بلکہ نہی عن المنکر کوبی اپنی سب سے بڑی ذمہ داری اور سعادت سمجھتی تھی؛ چنانچہ اس مبارک جماعت کے افراد انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقہ پراس صورتِ حال کوبدلنے اور برائیوں اور فتنوں کومٹانے کے لیے آگے بڑھے اور اس راہ میں انہوں نے وہ سب کچھ جھیلا جو اس راہِ حق کے راہ رؤں کوجھیلنا اور سہنا پڑتا رہا ہے، یعنی کتنے اس مقابلہ میں شہید ہوکر خدا کے خضور سرخ رو ہوئے، کتنوں نے داررسن کولبیک کہا اور اپنے مولیٰ کی مرضی پائی اور کتنے قید وبند کی کڑیاں جھیلتے جھیلتے جاں بحق ہوگئے اور کچھ موقع کی تلاش میں تھے:
 
مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَاعَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ۔
<ref>(الأحزاب:۲۳)</ref>
ترجمہ:اہلِ ایمان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جومعاہدہ کیا تھا اُسے پورا کردکھایا؛ پھربعض اُن میں ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نذر پوری کرلی، کچھ اس کے پورا کرنے کے آرزو مند ہیں۔