"تبع تابعین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 14:
گواس برگزیدہ جماعت کی یہ کوششیں شخصی حکومت کودوبارہ اسلامی خلافت میں تبدیل کردینے میں مکمل طور پرتوکامیاب نہیں ہوئیں (اس کے بہت سے اسباب تھے، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے، مکمل طور پرکی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ ان کوششوں کا کہ کچھ نہ کچھ اثر نظامِ حکومت اور ان کے چلاے والوں پربھی ضرور پڑتا تھا؛ مگرزیادہ تراس کا اثرمحدود اور وقتی ہوتا تھا؛ انہی کوششوں کا ایک ظہور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت تھی)؛ مگرایوانِ حکومت سے باہر معاشرہ کی اکثریت کودینِ مبین پرقائم واستوار رکھنے، ان کونئے نئے فتنوں سے بچانے اور علمی وعملی طور پردین کی حفاظت میں ان کی جدوجہد اور قربانی کا غیرمعمولی اثر ہوا اور ان کی یہ سعی اس لحاظ سے سعی مشکور ثابت ہوئی اور دراصل ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے۔
حضرات تابعین کے بعد اس مبارک کام کوان کی فیض یافہ جماعت یعنی تبع تابعین رحمہم اللہ نے اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے زمانہ کے حالات وضروریات کے مطابق اسے پورا کرنے کی کوشش کی، اس راہ میں ان کوبھی وہ تمام مصیبتیں اور صعوبتیں اُٹھانی پڑیں جوان کے پیش روؤں کواُٹھانی پڑی تھیں، صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین کی کوششوں کے دائرہ عمل میں اتنا فرق ضرور ہے کہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم نے انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح سے اصلاحِ حال کی سعی کی اور حضراتِ تابعین وتبع تابعین نے حالات اور چھپہلے تجربات کی بناپربی اور اس لیے بھی کہ امت مزید جنگ وجدال اور فتنہ وفساد سے محفوظ رہے، اپنا دائرۂ عمل انفرادی جدوجہد ہی تک محدود رکھا گوکہیں کہیں اجتماعی جدوجہد کی جھلک بھی ملتی ہے۔
=== قرآن مجید اور سیرۃ نبوی کا ایک اعجاز ===
 
قرآن مجید اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا اعجاز یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ دنیا کے علم وفن میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا؛ بلکہ ان کے ذریعہ اس کا دامن ایک ایسی متحرک عملی واخلاقی زندگی سے بھی مالامال ہوا جوایک خاص وقت میں پیدا ہوکر ختم نہیں ہوگئی؛ بلکہ صدہاسیاسی اور تمدنی انقلابات کے باوجود وہ دوام وتسلسل کے ساتھ آج تک باقی ہے اور انشاء اللہ قیامت تک باقی رہے گی، اس نئی متحرک اخلاقی وعملی زندگی کا اولین نمونہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ تھے یہی وجہ ہے کہ امت نے قرآن وسیرت کی حفاظت کے بعد ان بزرگوں کی سوانح حیات اور سیرت کے معنوی خدوخال کوتحریری طور پرمحفوظ ومنقوش کرلینے میں سب سے زیادہ کوشش کی؛ گوان نقوش کے ذریعہ ان قدسی صفات بزرگوں کی زندگی کی پوری کیفیتیں اور معنویتیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں؛ مگرپھربھی ان کی زندگی کا جتنا حصہ بھی بذریعہ تحریر ہم تک پہنچا ہے، اس کے پڑھنے سے آج بھی مردہ دلوں میں زندگی اور بجھی طبعیتوں میں سوزوگداز اور حرارت پیدا ہوتی ہے، ان کی سادہ سادہ باتوں سے دل میں خدا کی محبت کاجوش اور رضائے الہٰی کی طلب اور آخرت کا یقین بلکہ ذوق ومشاہدہ پیدا ہوتا ہے، ان کی زندگی کے عام واقعات کے سننے اور پڑھنے سے اقامت دین کا جذبہ احیائے سنت کا ولولہ اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی تڑپ پیدا ہوتی ہے، ان کے زہد واتقاء استغنا وبے نیازی اور خلفاوامراء سے ان کی بے تعلقی اور اظہارِ حق کے واقعات پڑھ کردنیا کی بے حقیقتی اور اس کوایمان کی راہ میں شارکردینے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے؛ اگرایک طرف اموی اور عباسی دور کی تاریخ پڑھ کرمایوسی اور شرمندگی پیدا ہوتی ہے توان کے حالات کا مطالعہ کرکے شرمندگی اور مایوسی دور ہوجاتی ہے۔