"تبع تابعین" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے |
مضمون میں اضافہ کیا ہے |
||
سطر 20:
عہد صحابہ کی ابتدا بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی اور اس کا اختتام اس وقت ہوا جب کہ دیدارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف اندوز ہونے والے آخری صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا پہلی صدی کے اختتام پرانتقال ہوا۔
عہد صحابہ کی طرح عہد تابعین کے بارے میں تاریخ وسنہ کی تعین کے ساتھ یہ بتانا مشکل ہے کہ وہ کب سے شروع ہوا اور کب ختم ہوا؛ مگربعض واقعات اور قوی قرائن کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس عہد کی ابتداء عہدِ نبوی میں ہوگئی تھی؛ کیونکہ اس عہد میں متعدد ایسے سلیم الفطرت لوگ موجود تھے جنہوں نے اپنے سرکی آنکھوں سے توروئے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی تھی؛ لیکن جوں ہی دعوتِ حق کی آواز ان کے کانوں تک پہنچی انہوں نے اس پرلبیک کہا اور اس کواپنے سویدائے دل میں جگہ دی، مثلاً حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ، حضرت اصمحہ شاہِ حبشہ رحمہ اللہ وغیرہ، اس طرح تقریباً ایک صدی تک عہدِ صحابہ اور عہدِ تابعین ساتھ ساتھ چلتا رہا؛ لیکن پہلی صدی کے اختتام پرصحابہ کا عہد سعید ختم ہوگیا اور اب حضرات تابعین کے ساتھ ان کی تربیت یافتہ جماعت اتباع تابعین کا عہد رشید اس میں منسلک ہوگیا اور تابعین کے ساتھ تبع تابعین کا دور قریب قریب پون صدی تک ساتھ ساتھ گذرا۔
عہد تابعین کی طرح، اتباعِ تابعین کے بارے میں بھی سنہ وتاریخ کی تعیین کے ساتھ نہیں بتایا جاسکتا کہ وہ کب سے شروع ہوا اور کب ختم ہوا؛ مگربعض اتباع تابعین کے سنہ ولادت اور بعض تابعین کے سنہ وفات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی صدی کے آخر سے اس عہد کی ابتدا ہوگئی تھی، مثال کے لیے امام شعبہ رحمہ اللہ کی ولادت سنہ۸۰ھ میں ہوئی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ولادت بھی سنہ۸۰ھ میں ہوئی لیکن عام ارباب تذکرہ امام شعبہ کا شمار اتباعِ تابعین میں کرتے ہیں، امام صاحب کا تابعین میں؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اتباعِ تابعین کا اصلی دور دوسری صدی کے ربع اوّل سے شروع ہوکر تیسری صدی کے ربع اوّل تک ختم ہوجاتا ہے اس لیے کہ بعض تابعین کی وفات سنہ۱۶۴ھ اور بعض کی سنہ۱۷۴ھ میں ہوئی، اس اعتبار سے جن ائمہ فقہ وحدیث کی ولادت سنہ۱۵۰ھ اور سنہ۱۶۴ھ کے درمیان ہوئی ان کوبھی معاصرت کی وجہ سے اسی زمرہ میں شامل کرلیا گیا ہے؛ اگرچہ تابعین سے ان کے کسب فیض کرنے کا کوئی ظاہری ثبوت موجود نہیں ہے، مثلاً امام شافعی، امام احمد بن حنبل، اسحاق ابنِ راہویہ، علی بن المدینی وغیرہ، دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اموی خلیفہ ولید ثانی کے عہد سے لے کرعباسی عہد کے دسویں خلیفہ متوکل علی اللہ کے عہد تک اتباعِ تابعین کا خالص عہد رہا ہے۔
تبع تابعین سے کون لوگ مراد ہیں؟
اس عہد میں گوبڑے بڑے صاحب سطوت خلفاء لائق ترین امراء اور سپہ سالار کامل ترین فلاسفہ ومتکلمین اور بڑے بڑے زبان آور خطباء ادباء وشعراء پیدا ہوئے جن میں سے ہرایک سے بواسطہ یابلاواسطہ ملک وملت اور اسلامی علوم کی کوئی نہ کوئی خدمت انجام پائی اور اس لحاظ سے ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بڑی احسان ناشناسی ہوگی؛لیکن ان کوہم زمرۂ تبع تابعین میں اس لیے شامل نہیں کرتے کہ صحابہ اور تابعین کی طرح تبع تابعین کا لقب بھی امت میں ان حضرات کے لیے مخصوص ہوگیا ہے، جن کے علم وعمل میں یکسانیت اور ہم رنگی رہو، جن کے ذریعہ دین یاعلم دین کی حفاظت کا براہِ راست کوئی نہ کوئی کام انجام پایا ہو، جن کی زندگی میں سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وتابعین کی سیرت کا رنگ غالب رہا ہو، جن کے علم وفضل، زہدوورع اور دیانت وتقویٰ پرایک مخلوق کواعتماد رہا ہو اور یہ اعتماد اب تک باقی ہو اس لیے جن خلفاء، وزراء، شعراء، ادباء اور اہلِ علم کی زندگی اس معیر پرپوری نہیں اترتی ان کا ذکر مستقلاً اس کتاب میں نہیں آئے گا، یوں جس طرح اس عہد کی سیاسی تاریخ کے ضمن میں حضرات تبع تابعین کا ذکر ضمناً آجاتا ہے؛ اسی طرح اس مرقع میں بھی اس کا ذکر ضمناً موقع، بہ موقع آگیا ہے۔
|