"تبع تابعین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 23:
=== تبع تابعین سے کون لوگ مراد ہیں؟ ===
اس عہد میں گوبڑے بڑے صاحب سطوت خلفاء لائق ترین امراء اور سپہ سالار کامل ترین فلاسفہ ومتکلمین اور بڑے بڑے زبان آور خطباء ادباء وشعراء پیدا ہوئے جن میں سے ہرایک سے بواسطہ یابلاواسطہ ملک وملت اور اسلامی علوم کی کوئی نہ کوئی خدمت انجام پائی اور اس لحاظ سے ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بڑی احسان ناشناسی ہوگی؛لیکن ان کوہم زمرۂ تبع تابعین میں اس لیے شامل نہیں کرتے کہ صحابہ اور تابعین کی طرح تبع تابعین کا لقب بھی امت میں ان حضرات کے لیے مخصوص ہوگیا ہے، جن کے علم وعمل میں یکسانیت اور ہم رنگی رہو، جن کے ذریعہ دین یاعلم دین کی حفاظت کا براہِ راست کوئی نہ کوئی کام انجام پایا ہو، جن کی زندگی میں سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وتابعین کی سیرت کا رنگ غالب رہا ہو، جن کے علم وفضل، زہدوورع اور دیانت وتقویٰ پرایک مخلوق کواعتماد رہا ہو اور یہ اعتماد اب تک باقی ہو اس لیے جن خلفاء، وزراء، شعراء، ادباء اور اہلِ علم کی زندگی اس معیر پرپوری نہیں اترتی ان کا ذکر مستقلاً اس کتاب میں نہیں آئے گا، یوں جس طرح اس عہد کی سیاسی تاریخ کے ضمن میں حضرات تبع تابعین کا ذکر ضمناً آجاتا ہے؛ اسی طرح اس مرقع میں بھی اس کا ذکر ضمناً موقع، بہ موقع آگیا ہے۔
=== اس عہد کی خوبیاں اور خرابیاں ===
 
تبع تابعین رحمہم اللہ کے عہد کی عکاسی اگرمختصر لفظوں میں کی جائے تویہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ عہد تضاد تھا، یعنی اگرآپ اس عہد کی سیاسی اور ادبی، تاریخ، فکری آزادی اور بعض معاشرتی خرابیوں کی داستان پڑھیں گے توآپ کے دل ودماغ پرتھوڑی دیر کے لیے یہ احساس ضرور طاری ہوجائے گا کہ یہ عہد ظلم وجورعیش وعشرت، قبائلی عصبیت اور مختلف مذہبی وسیاسی فتنوں اور فلسفیانہ موشگافیوں سے بھرا ہوا تھا؛ لیکن اسی آن اگر آپ کواس عہد کے قابل اعتماد محدثین، فقہا علما اور صلحاء کے تذکرے دے دئے جائیں اور اُن کے ذریعہ آپ کوکچھ دیر کے لیے ان برگزیدہ نفوس حضرات کی صحبت ومجلس میں پہنچادیا جائے تویہی نہیں کہ منفی طور پرآپ کے پہلے احساس میں کمی آجائے گی؛ بلکہ مثبت طور پرآپ یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ آپ کے کانوں میں ہرگوشہ سے قال اللہ اور قال الرسول ہی کی آواز آرہی ہے، ہرگھر اور ہرمجلس میں دین اور علم دین ہی کا چرچا ہے، فقروفاقہ کے باوجود دنیا اور اہلِ دنیا سے استغنا وبےنیازی، زہدواتقاء حق گوئی وبے باکی اور ان کی سادگی وتواضع کے واقعات پڑھ کرآپ کچھ دیرکے لیے اپنے آپ کوعہد صحابہ سے قریب ترمحسوس کرنے لگیں گے، ان کی علمی کاوشوں اورتفقہ واجتہاد اور قانونی دقتِ نظری کی اتنی کثرت سے مثالیں ملیں گی کہ اس عہد کی فلسفیانہ موشگافیوں کی آپ کے دل میں کوئی وقعت نہیں رہ جائے گی؛ جیسا کہ ذکر آچکا ہے کہ اسلامی معاشرہ میں یہ قضاء گوعہدراشدہ کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا؛ لیکن اس عہد میں بعض سیاسی اسباب اور بعض نئے فتنوں کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوگیا تھا، عہد تابعین یعنی اموی دور میں معاشرہ میں عام طور پرعربی اور بدوی رنگ غالب تھا اس لیے اس عہ دکی برائیوں میں ملمع سازی نہیں سادگی تھی؛ لیکن عہد تبع تباعین یعنی عباسی دور میں جوسیاسی، علمی، مذہبی، معاشرتی برائیاں پیدا ہوئیں، ان میں عجمیت، اباحیت پسندی اور فلسفیانہ موشگافی کا رنگ غالب تھا، جاحظ کا یہ مشہور مقولہ ہے کہ:
من كلام خُلفائنا من وَلَد العباس، ولوأن دولتَهم عجميّة خُراسانيّة، ودولة بني مَرْوان عربيّة أعرابيّة۔
<ref>(البیان ولتبیین:۱/۳۱۱، شاملہ، موقع الوراق۔دیگرمطبوعہ:۳/۲۰۶)</ref>