"تبع تابعین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 46:
ترجمہ: اے اہلِ خراسان تم ہمارے مددگار اور انصار اور ہماری حکومت کے داعی ہو۔
مگراس کے باوجود منصور کے زمانہ سے لے کرہارون کے زمانہ تک جتنی بغاوتیں اور مذہبی فتنے پیدا ہوئے ان میں ایرانیوں کا ہاتھ ضرور تھا، مثال کے طور پرسنہ۱۳۷ میں سنباو کی بغاوت سنہ۱۴۱ میں فرقہ راوندیہ کی شورش میں انہی کا ہاتھ تھا، سنہ۱۵۰ میں استاذسیس نامی ایک خراسانی نے دعوائے نبوت کیا، جس کی دعوت کوسب سے زیادہ فروغ انہی میں ہوا؛ اسی ذہنیت کے نتیجہ میں منصور کواپنے سب سے بڑے حامی ابومسلم حراسانی کوقتل کرانا پڑا، عجمیت نوازی کے نتائج عباسی حکومت کے سامنے برابر آتے رہے؛ لیکن ایرانی اور غیرعربی عنصر عباسی حکومت میں اتنا دخیل ہوچکا تھا کہ اس کوبالکل نظر انداز کردینا اس کے بس میں نہیں تھا۔
اس عجمیت نوازی سے گوعربوں کی اہمیت سیاسی طور پرقدرے کم ہوگئی تھی؛ لیکن پھربھی جوعربی عناصر حکومت کے اندر اور باہر موجود تھے؛ انھوں نے شکست نہیں کھائی تھی؛ بلکہ وہ ہمیشہ اس ذہنیت کا مقابلہ کرتے رہتے تھے؛ چنانچہ امین مامون کی جنگ گوبظاہر دوبھائیوں کی جنگ تھی؛ لیکن حقیقۃ عربوں اور عجمیوں کی جنگ تھی؛ اگرامین فاتح ہوتا تواس سے عربوں کی فتح ہوتی (کیونکہ اس کی ماں عربی النسل تھی جس کی وجہ سے عربی عصبیت اس میں کوٹ کوٹ کربھری تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس کی پشت پناہی زیادہ ترعربوں نے کی) اور مامون کی جیت ہوتی تواس سے عجمیوں اور غلاموں کی فتح ہوتی؛ کیونکہ وہ خود کنیز زادہ تھا اس لیے عجمیت نوازی اس کوورثہ میں ملی تھی اور اہلِ عجم ہی اس کے پشت پناہ تھے، ان عجمیوں کی فتنہ پرورذہنیت کا اندازہ نعیم بن حاذم عربی کی اس گفتگو سے لگائیے جواس نے مامون کے عجمی وزیر فضل بن سہل سے کی تھی، نعیم اور فضل میں مامون کے سامنے کسی بات پرسخت گفتگو ہوئی، نعیم نے فضل سے صاف صاف کہا کہ تم یہ چاہتے ہوکہ بنوعباس سے حکومت نکال کرآل علی میں پہنچادو اور پھرآل علی سے چھین کرآل کسریٰ کی حکومت دوبارہ قائم کردو۔
 
<ref>(کتاب الوزراء:۳۹۷)</ref>