"تبع تابعین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 58:
اس طرح اس موضوع پردوسرے بہت سے عجمیوں نے کتابیں لکھیں، جن میں علان الشعوبی، سعید بن حمید، ہشیم اور ابوعبیدہ کی کتابیں بہت مشہور ہوئیں، ابن ندیم نے ان سب کا تذکرہ کیا ہے، خاص طور پرابوعبید توان کا سرخیل تھا، ابن خلکان نے اس کے بارے میں لکھا ہے: کان یبغض العرب والف فی مثالبہا کتبا کثیرۃ۔
<ref>(ابن خلکان:۲/۵۵۴)</ref>
اس تحریک نے صرف سیاسی طور پرعربوں کوکمزور نہیں کیا بلکہ اس کے ذریعہ اسلامی علوم کوبھی کافی نقصان پہنچا؛ انہوں نے ادب وتاریخ اور تفسیر میں ایران کے شاہی زمانہ کے کتنے فرضی قصے اور نہ جانے کتنی بے سروپا روایتیں داخل کردیں؛ گوتبع تابعین اور ان کے بعد کے محدثین اور مفسرین نے ان قصوں اور روایتوں کی بڑی حد تک پردہ دری کی؛ لیکن اس کے باوجود تفسیر وحدیث کے ذخیرہ میں بہت سی روایتیں اہلِ عجم کی فضیلت کے سلسلہ میں اب بھی ایسی ملتی ہیں جن کودرایۃً تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔
 
عربی عصبیت اور عجمی عصبیت کے ساتھ اسلامی مملکت میں ایک اور عنصر نے معاشرہ کے بگاڑنے میں حصہ لیا، وہ موالی یعنی غلاموں کاطبقہ تھا، طوالت کے خیال سے اس کی تفصیل کونظرانداز کیا جاتا ہے؛ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خواص وعوام پرانہی کا اثر تھا اور معاشرہ میں اس وقت اسلامی ذہنیت کا بالکل ہی فقدان ہوچکا تھا اور اس کا مظاہرہ کرنے والے موجود نہیں تھے؛ بلکہ مقصود یہ دکھانا ہے کہ حضراتِ تبع تابعین کے عہد میں مسلمانوں کے حکمران اور غالب عجمی عنصر کا مقصود یہ دکھانا ہے کہ حضرات تبع تابعین کے عہد میں مسلمانوں کے حکمران اور غالب عجمی عنص رکا رحجان کیا تھا؟ اور معاشرہ میں کیا خرابیاں پیدا ہورہی تھیں؛ ورنہ اب بھی معاشرہ میں انہی لوگوں کی حقیقی عزت وعظمت تھی اور خواش اور عوام پرانہی کا اثر تھا، جوعلم وتقویٰ کے لحاظ سے ممتاز تھے؛ خواہ عربی ہوں یاعجمی، کالے ہوں یاگورے، اس ذہنیت کے پیدا کرنے اور پھراس کے باقی رکھنے میں حضرات تبع تابعین رحمہم اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ حصہ لیا، ان کی مجلسوں کا دروازہ جس طرح ایک عجمی کے لیے کھلا ہوا تھا؛ اسی طرح ایک عربی کے لیے بھی، جس طرح ان کا چشمہ فیض ہاشمیوں اور قریشیوں کے لیے جاری تھا؛ اسی طرح غلاموں کے لیے بھی؛ یہاں محمود وایاز ایک ہی صف میں نظر آتے تھے؛ یہاں امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام ابویوسفؒ، امام زفرؒ، سفیان ثوریؒ جیسے عربی النسل حضرات کی جوعظمت وعزت تھی، وہی عظمت وجلالت امام محمدؒ، یحییٰ بن معینؒ، امام اوزاعیؒ، سعید القطانؒ، ابن جریحؒ، علی بن المدینیؒ، عبدالرحمن مہدیؒ اور عبداللہ بن مبارکؒ جیسے غلامانِ اسلام کی تھی، ان حضرات کوجب بھی موقع ملا اس ذہنیت کومٹانے اور اس پرضرب لگانے کی کوشش کی، امام سفیان ثوریؒ کا انتقال غربت ومسافرت میں ہواتھا، انتقال کے وقت آپ نے پوچھا کہ میرے وطن کا کوئی آدمی ہے؟ لوگوں نے عبدالرحمن بن عبدالملک اور حسن بن عیاش کا نام لیا، آپ نے عبدالرحمن کونمازِ جنازہ اور حسن کوترکہ کی وصیت کی، انتقال کے بعد جب لوگوں کومعلوم ہوا کہ عبدالرحمن نمازِ جنازہ پڑھائیں گے توبنوتمیم کے لوگ یہ کہہ کرمانع ہوئے:
یمنی یصلی علی مصری،
ترجمہ:ایک یمنی مضری کی نمازِ جنازہ پڑھائے گا۔
یعنی امام سفیان مضری تھے اور عبدالرحمن کندی یمنی تھے، اس لیے یہ شرف کسی مضری ہی کوملنا چاہیے، جبلوگوں نے بنوتمیم سے یہ کہا کہ یہ امام کی وصیت ہے توپھرانہوں نے نمازِ جنازہ پڑھانے کی اجازت دی <ref>(تاریخ بغداد:۹/۱۶۰)</ref> اس سے اندازہ لگانا چاہیے کہ سیاسی بازی گرؤں نے اس ذہنیت کوکہاں تک پہنچادیا تھا۔
حضرت فضیل بن عیاض اور امام اوزاعی کے حالات میں پڑھیں گے کہ انہوں نے منصور اور ہارون جیسے باجبروت خلفا کے سامنے کس طرح اس ذہنیت پرضرب لگائی۔