"فسانۂ عجائب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Yethrosh نے صفحہ فسانہ عجائب کو فسانۂ عجائب کی جانب منتقل کیا: درستی نام
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 1:
'''فسانہ عجائب''' [[رجب علی بیگ سرور|رجب علی بیگ سرورؔ]] کی لکھی ہُوئی داستان ہے۔ہے اور بقول شمس الدین احمد <blockquote>”فسانہ عجائب [[لکھنؤ]] میں گھر گھر پڑھا جاتا تھا اور عورتیں بچوں کو کہانی کے طور پر سنایا کرتی تھیں اور بار بار پڑھنے سے اس کے جملے اور فقرے زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔“</blockquote> سرور 1786ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور 1867ء کو بنارس میں وفات پائی۔ سرور کو [[فارسی]] اور [[اردو]] پر پوری پوری دسترس حاصل تھی۔ شعر و شاعری کے بڑے شوقین تھے۔ فسانہ عجائب ان کی سب سے مشہور تصنیف ہے جو ایک ادبی شاہکار اور قدیم طرز انشا کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کی عبارت مقفیٰ اور مسجع، طرز بیان رنگین اور دلکش ہے۔ ادبی مرصع کاری، فنی آرائش اور علمی گہرائی کو خوب جگہ دی گئی ہے۔
 
اگرچہ [[فورٹ ولیم کالج]] کی سلیس نگاری نے مولانا فضلی اور مرزا رسوا کے پرتکلف انداز تحریر پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اور اس کا ثبوت [[باغ و بہار]] کی سادہ و سلیس نثر ہے۔ تاہم پھر بھی اکثر ادبا ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے قدیم طرز کے دلدادہ اور پرستار رہے۔ [[رجب علی بیگ سرور]] بھی اسی لکیر کو پیٹ رہے تھے۔ چنانچہ باغ و بہار کے آسان اور عام فہم اسلوب پر اس زمانے میں اعتراضات کیے جانے لگے اور سرور نے جواباً ”فسانہ عجائب“ کی صورت میں مشکل اورمقفی عبارت لکھ کر باغ و بہار کی ضد پیش کی اور اس زمانے میں خوب داد حاصل کی۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ فسانہ عجائب جو میر امّن کی باغ و بہار کے جواب میں لکھی گئی تھی، اس کے جواب میں دہلی کے فخر الدین حسین نے [[سروش سخن]] تحریر کی۔ بعد ازاں سروش سخن کے جواب میں منشی [[جعفر علی شیون]] کاکوروی نے [[طلسم حیرت]] نامی داستان رقم کی جس پر بالآخر اس داستانی مقابلے کا خاتمہ ہوا۔<ref>[https://fridayspecial.com.pk/2019/06/07/244373/ سرور اور فسانہ عجائب]</ref>