"فضل بن دکین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 53:
خلیفہ بغداد مامون کے آخری عہد (۲۱۸ھ) میں خلق قرآن کا فتنہ اٹھ چکا تھا،مامون کو اس مسئلہ میں از حد غلو تھا؛چنانچہ وقت کے تمام مشاہیر علماء اورفقہا اس فتنہ کی زد میں آئے، اس ابتلاء وآزمائش کا سب سے زیادہ نشانہ امام احمد بن حنبل کی مایۂ ناز شخصیت بنی ،مامون اوراس کے بعدمعتصم ہر قسم کے جبر وتشدد کے باوجود امام موصوف سے اس عقیدۂ باطل کا اقرار نہ کراسکے۔
معتصم کے عہد میں یہ فتنہ حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا، اس نے تمام ممالک محروسہ میں فرامین جاری کردئے تھے، کہ علمائے وقت سے زبردستی خلقِ قرآن کا اقرار کرایا جائے؛چنانچہ جو اربابِ علم و فضل میدان عزیمت وہمت کے شہسوار نہ تھے، انہوں نے رخصت پر عمل کرتے ہوئے سر اقرار خم کردیئے،لیکن صاحبان عزیمت نے خلقِ قرآن کا اقرار کرنے کے مقابلہ میں طوق وسلاسل اور داد ورسن کو ترجیح دی ،انہی اہل عزیمت علماء میں ابو نعیم بھی تھے۔
خطیب بغدادی نے اس فتنہ میں ابو نعیم کے ابتلاء کی پوری تفصیل درج کی ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو نعیم کوفہ ہی میں تھے، جس وقت فرمانِ خلافت کے تحت والی کوفہ نے خلقِ قرآن کا اعتراف کرنے کے لئے علماء کو طلب کیا؛چنانچہ ابو نعیم بھی ملنے گئے،ان سے پہلے ابن ابی حنیفہ،احمد بن یونس اورابو غسان پہنچے چکے تھے، والی نے سب سے پہلے ابو نعیم کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ دیکھو انہوں نے (ابن ابی حنیفہ نے) بھی اقرار کرلیا ہے،ابو نعیم نے یہ سن کر نہایت خشمناک لب ولہجہ میں ابن ابی حنیفہ کو سخت سست کہا اور والی سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں نے کوفہ میں کم و بیش سات سو شیوخ کو یہ کہتے سُنا ہے کہ القرآن کلام اللہ غیر مخلوق یعنی قرآن خدا کا کلام ہے،مخلوق نہیں ہے اوریہی میرا بھی عقیدہ ہے اوراس برملا اظہارِ حق کی خاطر خواہ میری گردن سرسے جدا کردی جائے میں اس سے باز نہیں رہ سکتا۔