"فضل بن دکین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 54:
معتصم کے عہد میں یہ فتنہ حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا، اس نے تمام ممالک محروسہ میں فرامین جاری کردئے تھے، کہ علمائے وقت سے زبردستی خلقِ قرآن کا اقرار کرایا جائے؛چنانچہ جو اربابِ علم و فضل میدان عزیمت وہمت کے شہسوار نہ تھے، انہوں نے رخصت پر عمل کرتے ہوئے سر اقرار خم کردیئے،لیکن صاحبان عزیمت نے خلقِ قرآن کا اقرار کرنے کے مقابلہ میں طوق وسلاسل اور داد ورسن کو ترجیح دی ،انہی اہل عزیمت علماء میں ابو نعیم بھی تھے۔
خطیب بغدادی نے اس فتنہ میں ابو نعیم کے ابتلاء کی پوری تفصیل درج کی ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو نعیم کوفہ ہی میں تھے، جس وقت فرمانِ خلافت کے تحت والی کوفہ نے خلقِ قرآن کا اعتراف کرنے کے لئے علماء کو طلب کیا؛چنانچہ ابو نعیم بھی ملنے گئے،ان سے پہلے ابن ابی حنیفہ،احمد بن یونس اورابو غسان پہنچے چکے تھے، والی نے سب سے پہلے ابو نعیم کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ دیکھو انہوں نے (ابن ابی حنیفہ نے) بھی اقرار کرلیا ہے،ابو نعیم نے یہ سن کر نہایت خشمناک لب ولہجہ میں ابن ابی حنیفہ کو سخت سست کہا اور والی سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں نے کوفہ میں کم و بیش سات سو شیوخ کو یہ کہتے سُنا ہے کہ القرآن کلام اللہ غیر مخلوق یعنی قرآن خدا کا کلام ہے،مخلوق نہیں ہے اوریہی میرا بھی عقیدہ ہے اوراس برملا اظہارِ حق کی خاطر خواہ میری گردن سرسے جدا کردی جائے میں اس سے باز نہیں رہ سکتا۔
والی کوفہ کے دربار میں ابو نعیم کی اس بے مثال جرأت،حق گوئی اوربیباکی کو دیکھ کر احمد بن یونس فوراً اٹھے اورانہوں نے ابو نعیم کی پیشانی کو بوسہ دیا اورکہا جزاک اللہ خیراً حالانکہ اس سے قبل دونوں بزرگوں میں سخت غلط فہمیاں تھیں۔
<ref>(تاریخ بغداد:۱۲/۳۴۹)</ref>