"اسد بن فرات" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 6:
قاضی '''ابوعبداللہ اسد بن فرات''' (پیدائش:[[759ء]]— وفات: [[جولائی]] [[828ء]]) [[افریقیہ]] سے تعلق رکھنے والے [[الٰہیات|ماہر الہٰیات]]، مجتہد، [[عالم]] اور [[فقیہ]] تھے۔
 
=== خاندان ===
قاضی اسد کی کنیت ابوعبداللہ، والد کا نام فرات اور دادا کا نام سنان تھا۔ قاضی اسد مزاحاً کہا کرتے تھے کہ: ’’میں اسد (شیر) ہوں‘ جو وحشی جانوروں میں سب سے بہتر ہے، میرے والد فرات ہیں جو دریاؤں میں سب سے بہتر ہے اور میرے دادا سنان (نیزے کی اَنی) تھے جو ہتھیاروں میں بہترین ہے۔‘‘ قاضی اسد کا خاندان بنو سُلَیم بن قَیس کے آزاد کردہ غلاموں میں سے تھا اور اُن کا آبائی وطن [[نیشاپور]] تھا اور ابھی یہ شکم مادر میں ہی تھے کہ اِن کے والد ہجرت کرکے بمقام [[حران]] (دیارِ ابی بکر) میں آئے اور یہیں مقیم ہوئے۔
 
سطر 15:
قاضی اسد کا آبائی پیشہ سپہ گری تھا۔ ابھی دو سال کے ہی تھے کہ اپنے والد فرات بن سنان کے ہمراہ [[144ھ]] میں محمد بن اشعث کی فوج کے ہمراہ [[افریقیہ|مسلم افریقہ]] آئے۔ [[قیروان]] میں پانچ سال کی عمر تک مقیم رہے، پھر اِن کے والد نے [[تیونس]] میں قیام اختیار کیا اور وہاں نو سال تک مقیم ہوئے۔
 
=== تحصیل علم ===
بعد ازاں اِس کے بعد اُن کے دینی علوم کی تکمیل کا وقت آیا۔ اُن دِنوں [[تیونس]] میں علی بن زیاد کی مسندِ درس [[حدیث]] بچھی ہوئی تھی۔ قاضی اسد علی بن زیاد کی مسندِ درس کی طرف رجوع کرنے لگے اور اُن سے علم [[حدیث]] و [[فقہ]] کی تحصیل کی۔ [[موطأ امام مالک]] پہلی بار امام علی بن زیاد سے پڑھی۔ [[176ھ]] میں تکمیل علم کے لیے مشرق کے سفر پر روانہ ہوئے اور [[مدینہ منورہ]] پہنچے اور [[امام مالک]] کے حلقۂ درس میں شریک ہوئے۔ [[امام مالک]] کے درس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ [[موطأ امام مالک|موطأ]] کے درس میں طلبہ کے سوالات کے جوابات دیتے تھے جنہیں تلامذہ لکھتے جاتے تھے۔ عبد اللہ بن وہب اور عبدالرحمٰن بن قاسم [[امام مالک]] کے نامور تلامذہ میں سے تھے اور اِن کی حیثیت [[امام ابوحنیفہ]] کے اصحاب [[امام ابو یوسف]] اور [[امام محمد بن حسن شیبانی]] کی سی تھی اور یہی دونوں کے جوابات کو لکھا کرتے تھے۔[[امام مالک]] فطرتاً قیل و قال کو پسند نہیں کرتے تھے اور سہل و سادہ طور پر محض روایات کی بنیاد پر جواب دیتے تھے۔ اِسی وجہ سے تلامذہ اپنے طالب علمانہ خدشاتِ دِلی کو پیش کرتے ہوئے جھجھکتے تھے۔ جب اسد [[امام مالک]] کی مجلس میں شریک ہوئے تو ابن قاسم وغیرہ نے اُن کے ذریعہ سے اپنے خدشات زائل کرنا چاہے اور اُنہیں سوال در سوال سکھاتے تاکہ وہ [[امام مالک]] کے سامنے یہ سوالات پیش کرسکیں۔بالآخر [[امام مالک]] نے اسد کو بھی قیل و قال کی ممانعت کردی اور یہ پورا واقعہ خود قاضی اسد کی زبانی یوں ہے کہ: [[امام مالک]] کے اصحاب قاسم وغیرہ مجھے سکھاتے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق اُن سے دریافت کروں۔چنانچہ جب اُن سے سوال کرتا تو وہ جواب دے دیتے۔ اِس کے بعد میرے ساتھی مجھے پھر یوں سکھانے لگے کہ: اگر یہ ایسا ہے تو یوں ایسا ہوگا اور یہ یوں ہے تو یہ یوں ہوگا۔ اِس پر میں اِسی طریقہ سے سوالات کرنے لگا۔ایک دِن وہ مجھ سے عاجز آگئے اور فرمانے لگے کہ سلسلہ در سلسلہ چھیڑ رکھا ہے، اگر ایسا ہو تو یہ ایسا ہے اور ایسا ہو تو ۔۔۔۔ اگر تم یہ چاہتے ہو تو تمہارے لیے [[عراق]] کا راستہ ہے۔‘‘ (یعنی اگر قیل و قال ہی کرنا لازم ہے تو [[عراق]] روانہ ہوجاؤ تاکہ وہاں کے فقہا سے قیل و قال کرسکو)۔ اِس واقعہ کے بعد میں نے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ تم لوگ میرا سہارا پکڑتے ہو، میں آئندہ اِس قسم کی حرکت نہ کروں گا۔<ref name=":0" />
 
سطر 27:
قاضی اسد نے مشرق میں [[فقہ مالکی]] و [[فقہ حنفی]] کی تحصیل کے علاوہ شیوخِ [[عراق]] میں سے یحییٰ بن اکوع بن ابی زائدہ لاکوفی، ابوبکر بن عیاش، مُسَیَّب بن شریک اور ہیثم بن شریک وغیرہ سے علم [[حدیث]] حاصل کیا اور اُن سے احادیث روایت کیں اور اِن میں سے صرف مؤخر الذکر ہیثم بن شریک سے بارہ ہزار احادیث لکھیں۔<ref>ضمیمہ تلامذہ امام محمدقاضی اسد بن فرات فاتح صقلیہ: صفحہ 10۔</ref>
 
=== [[عراق]] سے واپسی اور [[مصر]] کا سفر ===
قاضی اسد مشرق میں تحصیل علوم سے فراغت کے بعد وطن واپسی کے خیال پر آمادہ ہوئے لیکن مصارف کا کوئی سامان نہ تھا، اِس لیے سخت پریشان تھے اور آخر [[امام محمد بن حسن شیبانی|امام محمد]] کے سامنے تذکرہ آیا تو اُنہوں نے فرمایا: تمہارا ذِکر ولی عہد کے سامنے کروں گا، اُمید ہے کہ تم باآسانی وطن پہنچ جاؤ گے۔چنانچہ [[امام محمد بن حسن شیبانی|امام محمد]] نے ولی عہد سے اِن کا تذکرہ کیا اور اُس سے ملاقات کے لیے تاریخ مقرر ہو گئی۔جب ولی عہد کے محل جانے لگے تو [[امام محمد بن حسن شیبانی|امام محمد]] نے اُنہیں سمجھایا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ جس رکھ رکھاؤ سے پیش آؤ گے، ویسا ہی وہ بھی تم سے برتاؤ کریں گے، اگر تم اپنی خودداری قائم رکھ کر اُن سے ملو گے تو وہ بھی تمہیں باعزت و خوددار سمجھیں گے۔ اِس کے بعد ولی عہد کے محل پہنچے، ایک خادم نے اُن کا اِستقبال کیا اور ایک جگہ بٹھا دِیا، یہاں ایک اُن کے سامنے ڈھکا ہوا ایک خوان لایا گیا۔ اسد نے پوچھا:’’یہ جو کچھ لائے ہو، تمہاری طرف سے ہے یا تمہارے آقا کی طرف سے؟‘‘ پھر وہ بولا: آقا کے حکم سے لایا ہوں۔ اسد نے خوبصورتی سے جواب دیا: تمہارا آقا کبھی اُسے پسند نہیں کرسکتا کہ اُس کا مہمان اُس کی شرکت کے بغیر کھانا کھائے، صاحبزادے یہ تمہارا ہی احسان ہے، مجھ پر بھی تمہاری مکافات واجب ہے۔ یہ کہہ کر جیب ٹٹولی اور اُس وقت سارا سرمایہ جو جیب میں تھا، وہ صرف چالیس [[درہم]] تھے۔ اُنہوں نے اُس کے صلے میں بڑی فراخی سے وہ چالیس [[درہم]] اُس کی طرف بڑھا دیے اور خوان اُٹھا لینے کا اِشارہ کیا۔ خادم قاضی اسد سے بہت زیادہ خوش ہوا اور سارا واقعہ اپنے آقا سے جا کر کہہ دیا۔ وہ سن کر محظوظ ہوا اور قاضی اسد کو اندر طلب کر لیا۔جب میں ولی عہد کے پاس پہنچا تو وہ ایک تخت پر جلوہ افروز تھا۔ اُس کے سامنے ایک دوسرا تخت تھا جس پر حاجب بیٹھا ہوا تھا، تیسرا تخت خالی تھا، اُس پر مجھے بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔ پھر مجھ سے مختلف گفتگوئیں کرتا رہا اور میں مناسب جوابات دیتا رہا۔ جب میری واپسی کا وقت آیا تو ایک رقعہ لکھ کر سربمہر لفافہ میرے حوالے کر دیا اور کہا: اِسے صاحب دیوان کے یہاں لے جاؤ تو وہ تمہیں اپنا ملازم تصور کریں گے۔ قاضی اسد نے دوبارہ ملاقات کا خیال ترک کرکے رختِ سفر باندھ لیا اور اپنے شفیق اُساتذہ سے رخصت ہوکر [[مصر]] روانہ ہو گئے۔
 
سطر 67:
۱۸۱ھ میں قاضی اسد مصر سے قیروان واپس آئے اوریہاں پہنچتے ہی خلقِ خدا کا ہجوم امنڈ پڑا اور انہوں نے مؤطا امام مالک اورالاسد یہ کا درس جاری کردیا،ا مام مالک سے بیک واسطہ احادیث لینے اور الاسدیہ کی روایت اورسماع کیلئے افریقہ اورمغرب کے جلیل القدر علماء نے اسد کے سامنے زانو تلمذ تہہ کیا اور چند ہی دنوں میں ان کی "اسد یہ کی روایت جسے عرفِ عام میں المدونہ بھی کہنے لگے تھے سارے افریقہ ومغرب میں پھیل گئی۔
 
=== مزید دیکھیے ===
* [[مالک بن انس]]
* [[ابو یوسف]]
سطر 74:
* [[موطأ امام مالک]]
 
=== حوالہ جات ===
{{حوالہ جات}}
{{مالکی علما}}