"ٹھٹہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 159:
*مزید پڑھیں: '''[[ارغون خاندان]]'''، '''[[ظہیر الدین محمد بابر]]'''
[[1509ء]] میں [[جام نظام الدین دوم]] یعنی جام نِندوکی وفات ہوئی تو [[شاہ بیگ ارغون]]‘ حاکم [[بھکر]] نے ٹھٹہ پر لشکرکشی شروع کردی۔ [[شاہ بیگ ارغون]] نے [[1508ء]] میں ٹھٹہ پر پہلا حملہ اور [[1521ء]] میں دوسرا حملہ کیا۔ دوسرے حملے کے دوران وہ مکملاً ٹھٹہ پر قابض ہوگیا۔اِن حملوں سے [[سما سلطنت|سما خاندان کے جام حکمرانوں]] کی حکومت ختم ہوگئی اور [[شاہ بیگ ارغون]] حکمران بن بیٹھا۔ وہ چاہتا تھا کہ [[سندھ]] کے علاوہ [[گجرات (بھارت)|گجرات]] کا علاقہ بھی اُس کے ہاتھ آ جائے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ [[ظہیر الدین محمد بابر|کابل کا مغل حکمران بابر]] ہندوستان پر حملہ کرنے کو تیار ہے اور اُسے وہ [[بھکر]] سے نکال باہر کرے گا۔ اِسی لئے [[شاہ بیگ ارغون]] اپنے لئے کوئی اور علاقہ تجویز کر رہا تھا مگر اِسی اثناء میں [[1524ء]] میں وہ انتقال کرگیا اور یہ خواب محض خواب ہی رہ گیا۔ اُس کے اِنتقال کے بعد اُس کے بیٹے میرزا شاہ حسین ([[930ھ]]– [[961ھ]]) نے اپنی سیاسی بصیرت و تدبر اور استقلال کے باعث مغل بادشاہوں کا [[سندھ]] میں اِقتدار قائم نہ ہونے دیا۔البتہ [[بابر نامہ]] کے اِقتباسات سے پتا چلتا ہے کہ میرزا شاہ حسین اور [[ظہیر الدین محمد بابر|مغل شہنشاہ بابر]] کے مابین تعلقات قائم ہوگئے تھے کیونکہ میرزا شاہ حسین کی درخواست پر [[ظہیر الدین محمد بابر|شہنشاہ بابر]] نے [[1527ء]] میں [[آگرہ]] سے گنجفہ<ref>ایک کھیل جو تاش کے پتّوں کی طرح کھیلا جاتا ہے ۔ اُس کا پتّا تاش کے برخلاف گول گتّے کی شکل اور اوسط درجےمیں رُہے سے ڈیوڑھا یا سوایا ہوتا ہے ، گنجفے کی آٹھ بازیاں (رنگ) اور چھیانوے پتّے ہوتے ہیں اور تین کھلاڑیوں میں کھیلا جاتا ہے آٹھ بازیوں میں چار پڑی اور چار چھوٹی بازیاں کپلاتی ہیں ، بڑی بازیوں کے نام تاج ، سفید ، شمشیر اور غلام ہیں ، چھوٹی بازیوں کے نام چنگ ، سرخ ، قماش اور برات ہیں ، تاج کا میر ماہتاب اور سرخ کا میر آفتاب کہلاتا ہے جو اصطلاحاً رات اور دن کے کھیل کے میر کہلاتے ہیں۔</ref> بھجوایا تھا۔ <ref>[[اردو دائرہ معارف اسلامیہ]] : جلد 6، ص 975۔</ref> ٹھٹہ ([[سندھ]]) پر [[شاہ بیگ ارغون]] اور اُس کے خاندان کی حکومت [[1520ء]] سے [[1554ء]] تک قائم رہی۔ اِس دوران [[عربی زبان|عربی]] اور [[سندھی زبان|سندھی]] کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل رہی۔
===ترخان خاندان===
*مزید پڑھیں: '''[[ترخان خاندان]]'''
[[1554ء]] میں [[ارغون خاندان]] کا ٹھٹہ اور اُس کے قرب و جوار میں اقتدار کمزور پڑنا شروع ہوا تو [[ترخان خاندان]] برسر اِقتدار آگیا۔ جنہوں نے 38 سال تک [[سندھ]] پر حکومت کی۔ نواب میرزا عیسیٰ خاں ترخان کے عہدِ حکمرانی میں ماہ ِ [[ربیع الثانی]] [[963ھ]] مطابق [[مارچ]] [[1556ء]] میں پرتگالیوں نے جمعہ کے دن ٹھٹہ پر دھاوا بول دیا۔لوگ نمازِ جمعہ اداء کر رہے تھے کہ پرتگالیوں نے شہر کو لوٹ کر مکانات کو آگ لگا دی۔ میرزا عیسیٰ خاں اُس وقت [[بھکر]] میں تھا۔ اُسے خبر ملی تو فوراً ٹھٹہ پہنچا۔اُس نے شہر کی ایک فصیل [[دریائے سندھ]] کے ساتھ ساتھ تعمیر کروائی اور ایک نہر کھدوا کر شہر کے اندر لایا۔ نیا قلعہ ’’شاہ بندر‘‘ بھی تعمیر کروایا۔<ref>[[اردو دائرہ معارف اسلامیہ]] : جلد 6، ص 975۔</ref>
==[[سلطنت مغلیہ]]==
[[1526ء]] میں جب [[کابل]] کے مغل حکمران [[ظہیر الدین محمد بابر]] نے ہندوستان پر لشکرکشی کی تو اُس وقت تک سندھ پر مقامی حکمرانوں کی حکومت قائم تھی۔ اوائل عہد میں مغلوں کی توجہ [[سندھ]] کی جانب مبذول نہ ہوئی البتہ اِس دوران [[سما سلطنت| سما حکمران]]، [[ارغون خاندان|ارغون حکمران]] اور [[ترخان خاندان|ترخان حکمران]] نے حکومت کی۔ [[1540ء]] کے عشرہ میں جب [[مغل شہنشاہ]] [[نصیر الدین محمد ہمایوں|ہمایوں]] [[شیر شاہ سوری]] سے شکست کھا کر پناہ کی تلاش میں نکلا تو وہ [[لاہور]] سے ہوتا ہوا [[بھکر]] آیا اور [[بھکر]] سے مایوسی کی حالت میں ٹھٹہ پہنچا مگر حسین میرزا ارغون‘ والی ٔ ٹھٹہ نے [[نصیر الدین محمد ہمایوں|ہمایوں]] کے خلاف برسرپیکار ہوگیا اور جنگ کی اور لشکر ہمایوں میں غلہ پہنچنا بند کروا دیا۔ ناچار [[مغل شہنشاہ]] یہاں سے رخصت ہوا اور [[جودھ پور]] کی جانب چلا گیا۔
 
==مرکز تجارت==