"ٹھٹہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 129:
[[فائل:Tomb 1 Thatta.jpg|300px|تصغیر|مقبرہ شہزادہ سلطان ابراہیم بن نواب عیسیٰ خان ترخان ، ([[مکلی قبرستان]]، ٹھٹہ)]]
[[فائل:Interior of Shah Jahan Mosque.JPG|300px|تصغیر|شاہجہانی مسجد، ٹھٹہ کا اندرونی منظر]]
[[فائل:Thatta collage.jpg|300px|تصغیر|قبرستان مکلی]]
*مزید پڑھیں: '''[[احمد حسن دانی]]'''، '''[[میر علی شیر قانع ٹھٹوی]]'''، '''[[تحفۃ الکرام]]'''، '''[[برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی|برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی]]'''، '''[[سندھ]]'''
[[فارسی زبان|فارسی]] اور [[عربی زبان|عربی]] کتب میں اِس شہر کا نام '''تھتہ''' یا '''تتہ''' لکھا ہوا ملتا ہے جو کہ '''البتہ''' کا ہم قافیہ ہے۔ مصنف بستان السیاحۃ نے اِسے ’’البتہ‘‘ کا ہم قافیہ ہی مراد لیا ہے<ref>بستان السیاحۃ، ص 188، اشاعت دؤم</ref>۔ لیکن اِس ہم قافیہ بے معنی لفظ سے ٹھٹہ کی وجہ تسمیہ ناقابل فہم ہے بلکہ مصنف [[تحفۃ الکرام]] کی رائے متذکرہ بالا رائے سے کہیں بہتر ہے ۔ [[سندھ]] کے نامور محقق اور کثیر الجہت شخصیت [[میر علی شیر قانع ٹھٹوی]] نے اپنی تصنیف [[تحفۃ الکرام]](سالِ تصنیف: [[1767ء]]) میں ٹھٹہ کے نام کی وجہ یوں بیان کی ہے کہ: ’’اِس وقت ([[1181ھ]] مطابق [[1767ء]]) ٹھٹے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں دو باتیں مشہور ہیں: کچھ کہتے ہیں کہ یہ ’’تہ تہ‘‘ یعنی ’’ نشیبی نشیبی‘‘ کی خصوصیت سے منسوب ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ یہ ’’ٹھٹ‘‘ کے لفظ سے موسوم ہے جو سندھیوں کی اصطلاح میں ’’لوگوں کے جمع ہونے کے مقام‘‘ کے معنی رکھتا ہے۔ مخفی نہ رہے کہ یہ سرزمین جیسا کہ تواریخ سے معلوم ہوتا ہے، قدیم زمانے میں بھی ٹھٹے کے نام سے پکاری جاتی تھی اور چونکہ [[سندھ]] کے بالائی حصہ کو عام لوگ ’’سیرو‘‘ کہتے ہیں اور اِس نشیبی حصہ کو ’’لاڑ‘‘ (یعنی نشیب یا ڈھال) کہا جاتا ہے، اِس لیے (یہی رعایت) ٹھٹے کی وجہ تسمیہ کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے۔<ref> [[میر علی شیر قانع ٹھٹوی]] : [[تحفۃ الکرام]]، 24 واں باب،ص 569</ref> مصنف [[تحفۃ الکرام]] کے بیانِ مذکور سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ [[1181ھ]] مطابق [[1767ء]] تک اِس شہر کو ٹھٹہ کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ [[سلطنت مغلیہ]] کا عہدِ زوال ہے جبکہ [[ایسٹ انڈیا کمپنی]] [[بنگال]] میں اپنے قدم جماچکی تھی۔