"ٹھٹہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 183:
ٹھٹہ مدتِ دراز سے تجارت کا اہم مرکز رہا ہے۔ [[سلطنت مغلیہ]] کے زمانہ میں تجارت میں ٹھٹہ کی برابری ہندوستان کا کوئی شہر نہ کرسکتا تھا۔ اُس زمانے میں [[ملتان]] اور [[بھکر]] سے اَموال و اثقال براہِ [[دریائے سندھ]] کشتیوں میں ٹھٹہ لاتے تھے اور مسافر بلکہ لشکر بھی خشکی کے راستے پر، جہاں جنگل اور پانی کی دستیابی کی دشواری تھی، وہاں [[دریائے سندھ]] کے راستے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ [[1758ء]] تک ٹھٹہ تجارت کا مرکز بن چکا تھا۔ ٹھٹہ سے [[بھکر]] تک کشتیوں کی آمد و رفت کا تانتا بندھا رہتا تھا<ref>[[اردو دائرہ معارف اسلامیہ]] : جلد 6، ص 973۔</ref>۔ [[1591ء]] میں جب [[عبد الرحیم خان خاناں|خانِ خاناں]] نے ٹھٹہ پر لشکر کشی کی تو بار بار لشکر کو غلہ کشتیوں کے ذریعہ [[لاہور]] سے وہاں تک پہنچایا گیا۔<ref>خلاصۃ التواریخ: صفحہ60، 415۔</ref> [[1614ء]] کے قریب قریب پرتگیزی [[لاہور]] سے کشتیوں میں سواریاں اور مال بھر کر ٹھٹہ لاتے تھے اور وہاں سے مال کو [[ایران]] بھیجتے تھے<ref>Major General Malcolm Robert Haig: The Indus Delta Country, A Memoir, London, 1894, p. 78</ref>۔ سیاح فوسٹر نے لکھا ہے کہ [[لاہور]] سے براہِ [[دریائے سندھ]] تک ایک مہینہ کا سفر تھا اور بالعکس دو مہینے کا؛ مگر بقول سیاح فنچ نے لکھا ہے کہ [[لاہور]] سے ٹھٹہ براہِ [[دریائے سندھ]] چالیس دن کی راہ پر ہے، بہت سی کشتیاں ساٹھ ٹن اور اُس سے زائد وزن کی برسات کے بعد [[ملتان]]، سیت پور (ضلع مظفر گڑھ) اور [[بھکر]] اور [[روہڑی]] کے راستے چلتی تھیں۔ کوہستانِ چنبہ سے لکڑی براستہ [[دریائے سندھ]] [[وزیر آباد]] اور وہاں سے کشتی ہائے چوب میں اُسے [[بھکر]] اور ٹھٹہ پہنچاتے تھے۔<ref>سجان رائے: خلاصۃ التواریخ، ص77 ۔ </ref><ref>[[اردو دائرہ معارف اسلامیہ]] : جلد 6، ص 974۔</ref>
 
==ٹھٹہ مشہور سیاحوں کی نظر میں==
== اہم مقامات ==
مشہور سیاح [[ابن بطوطہ]] اگرچہ اِس علاقے سے براستہ [[دریائے سندھ]] گزرا ہے مگر وہ شاید ٹھٹہ میں نہیں اُترا اور اِسی لیے اُس نے ٹھٹہ کا حال نہیں لکھا۔ [[1615ء]] میں سر تھامس رو کے پادری چیپلن ٹیری نے اِسے زرخیز اور خوشگوار مقام بتلایا ہے۔[[1665ء]] اور [[1666ء]] کے درمیانی عرصہ میں اطالوی سیاح تراورنیے (Travernier) نے بھی ٹھٹہ کو دیکھا اور یہاں سے گذرتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے۔اُس کی رائے تھی کہ : یہاں کی تجارت اب رُو بہ انحطاط ہے کیونکہ دریا ([[دریائے سندھ]]) کا دہانہ زیادہ خطرناک ہوچکا ہے اور جا بجاء جوہڑ بن رہے ہیں۔[[1699ء]] میں الیگزینڈر ہملٹن (Alexander Hamilton) ٹھٹہ سے گذرا، اُس کے اندازے کے مطابق شہر تین میل لمبا اور نصف میل چوڑا تھا اور اُس وقت آبادی 80 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ <ref>[[اردو دائرہ معارف اسلامیہ]] : جلد 6، ص 976۔</ref>
 
== اہم مقامات ==
ٹھٹہ کے نوادرات میں جامع مسجد (جسے [[شاہجہانی مسجد]] اوربادشاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے) جو مغل بادشاہ [[شاہجہان]] نے [[1649ء|49]]-[[1647ء]] کے درمیان تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں 93 گنبدہیں اور اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسی [[مواصلاتی آلہ]] کے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ مقبروں میں یہاں سب سے بڑا اور قابل{{زیر}} دید مقبرہ [[عیسیٰ خان ترخان]] کا ہے جو [[1644ء]] میں انتقال کر گیا تھا۔ عیسیٰ خان ترخان نے یہ مقبرہ اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروا لیا تھا۔ مقبرے کی تعمیر مکمل ہوتے ہیں، عیسٰی خان نے مقبرے کو بنانے والے ہنرمند کے ہاتھ کٹوا دیے تھے تاکہ کوئی دوسرا بادشاہ اس طرح کا مقبرہ نہ بنوا سکے۔<ref name="پاکستانی سیاحت"/> عیسیٰ خان کے مقبرے کے علاوہ یہاں مرزا جانی بیگ، مرزا تغرل بیگ اور دیوان شرفاء خان کے مقبرے بھی نہایت مشہور ہیں۔
اس کے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا اور قدیم قبرستان [[مکلی]] بھی ٹھٹہ کے قریب واقع ہے۔ یہ قبرستان جس میں لاکھوں قبو رہیں تقریبا{{دوزبر}} آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علما، فلسفی اور جرنیل ابدی نیند سو رہے ہیں۔ یہاں کی قبروں کی خاص بات اُن کے دیدہ زیب خدوخال اور نقش و نگار ہیں جو نہ صرف اہل{{زیر}} قبر کے زمانے کی نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اُس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں موجود قبریں تاریخی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ پہلا [[سما سلطنت|سما]] بادشاہوں کا دور جو (1520ء - 1352ء) تک رہا اور دوسرا [[سلطنت ترخان|ترخان]] بادشاہوں کا دور جو (1592ء - 1556ء) تک رہا۔ ان عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرز{{زیر}} تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ ان قبروں پر کی گئی [[نقاشی]] اور [[کشیدہ کاری]] کا کام اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قبرستان تاریخ کا وہ ورثہ ہے جو قوموں کے مٹنے کے بعد بھی اُن کی عظمت و ہنر کا پتہ دیتا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں لوگ اس قبرستان میں آتے ہیں۔