"شاہ نصیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 6:
==سوانح==
===نام و نسب===
شاہ نصیر کا نام محمد نصیر الدین اور عرف میاں کلو تھا اور عموماً لوگ اُنہیں پیار سے ’’میاں کلو‘‘ کے نام سے ہی پکارتے تھے۔ [[محمد حسین آزاد|مولانا محمد حسین آزاد]] کا بیان ہے کہ رنگت کے سیاہ فام تھے، اِسی لیے گھرانے کے لوگ ’’میاں کلو‘‘ کہتے تھے۔<ref>[[محمد حسین آزاد]]: [[آب حیات (آزاد)|آب حیات]]، صفحہ 416۔</ref> نام کے ابتداء میں ’’شاہ‘‘ کا لفظ سادات سے نسبت اور [[تصوف]] سے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ شاہ صدر جہاں (میر جہاں) کی اولاد میں سے تھے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد درگاہ کے سجادہ نشین ہوئے۔ آپ کے والد شاہ غریب (شاہ غریب اللہ) ایک خوش طینت و نیک سیرت بزرگ تھے۔ <ref>کلیات شاہ نصیر: جلد1 ، ص 11۔</ref> [[محمد حسین آزاد|مولانا آزاد]] کا بیان ہے کہ: ’’والد شاہ غریب نام ‘ ایک بزرگ تھے کہ اپنی غربت ِ طبع اور خاکساریٔ مزاج کی بدولت اسم بامسمیٰ تھے۔ نیک نیتی کا ثمرہ تھا کہ نام کی غریبی کو امیری میں بسر کرتے تھے۔ شہر کے رئیس و اَمیر سب ادب کرتے تھے مگر وہ گوشۂ عافیت میں بیٹھے اپنے معتقد مریدوں کو ہدایت کرتے تھے۔ <ref>[[محمد حسین آزاد]]: [[آب حیات (آزاد)|آب حیات]]، صفحہ 416۔</ref> آپ کے والد شاہ غریب کا اِنتقال بروز یکشنبہ ([[اتوار]]) 13 [[ذوالقعدہ|ذیقعد]] [[1182ھ]] مطابق [[19 مارچ]] [[1769ء]] کو [[مغل شہنشاہ]] [[شاہ عالم ثانی]] کے عہدِ حکمرانی میں [[دہلی]] میں ہوا۔ شاہ غریب کا مزار [[دہلی]] میں روشن پورہ میں نئی سڑک پر ہے۔<ref>مزارات اولیائے دہلی: صفحہ 162۔</ref>
 
===پیدائش===
شاہ نصیر کی پیدائش [[دہلی]] میں ہوئی۔ عمدہ منتخبہ میں ہے کہ: ’’اصلش اَز دہلی‘‘ <ref>اعظم الدولہ میر محمد خاں سرور: عمدہ منتخبہ، صفحہ 752۔</ref>۔ [[محمد حسین آزاد|مولانا آزاد]] نے بھی یہی لکھا ہے کہ: ’’ وطن اُن کا خاص [[دہلی]] تھا‘‘ <ref>[[محمد حسین آزاد]]: [[آب حیات (آزاد)|آب حیات]]، صفحہ 416۔</ref>۔ لیکن شاہ نصیر کے کسی تذکرہ نگار نے اُن کا سالِ پیدائش یا زمانہ پیدائش کے متعلق کوئی اِشارہ نہیں کیا۔ [[غلام علی ہمدانی مصحفی|مصحفی]] نے اپنے تذکرہ ’’ریاض الفصحاء‘‘ میں شاہ نصیر کے سفرہائے [[لکھنؤ]] کے ضمن میں لکھا ہے کہ:درین نزدیکی دو سہ بارہ مشار الیہ باین دیار آمدہ،۔۔۔ عمرش از شصت متجازو خواہد بود‘‘ <ref>[[غلام علی ہمدانی مصحفی]]: ریاض الفصحاء، صفحہ 337-338۔</ref>۔