"ابن علیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ردِّ ترمیم)
جانبدارنہ مواد حذف
(ٹیگ: دستی ردِّ ترمیم)
سطر 37:
حدیث کی طرح ابن عُلیہ کو فقہ میں بھی تجر اور کمال حاصل تھا۔ شعبہ بن حجاج انہیں ریحانۃ الفقہاء کہا کرتے تھے۔<ref name="حوالہ2"/>
== عہدہ قضا ==
فقہی مہارت اور تجر علی کی وجہ سے متعدد عہدوں پر بھی فائز ہوئے۔ چنانچہ ان کو سب سے پہلے بصرہ کی صدقات کا انتظام سپرد کیا گیا۔ پھر بغداد کے محکمہ فوجداری کے ذمہ دار مقرر ہوئے اور آخر میں بغداد کے منصبِ قضاء سے سرفراز ہوئے، لیکن زیادہ عرصہ تک اس منصب پر قائم نہیں رہے۔ [[عبد اللہ بن مبارک]] کی ناخوشی کا علم ہوتے ہی اس عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔<ref>تہذیب التہذیب از [[ابن حجر عسقلانی]]،عسقلانی، ج 1، ص 278</ref><ref>تاریخ بغداد از خطیب بغدادی، ج 6، ص 235 {{dash}} 236</ref> واقعہ[[یحییٰ کیبن تفصیلشرف یہ بیاننووی]] کی جاتیرائے ہے کہ عبداللہ بن مبارک تجارت کرتے تھے اوراس میں انہیں کافی نفع بھی تھا، لیکنپہلے یہ پیشہ جلب زرد منفعت[[بصرہ]] کے لئےصدقات نہیںو تھا؛بلکہزکوٰۃ علماءکے اورطلبہوالی کیبنائے خدمتگئے، اورانپھر کی[[ہارون دنیوی ضروریات پوری کرنےالرشید]]، کے لئے تھا؛چنانچہ ابن مبارک خود ہی فرماتے ہیں کہ اگر سفیان بن عیینہ،سفیان ثوری،فضیل ابن السماک اورابن علیہ،یہ پانچ حضرات نہ ہوتےآخری تودور میں تجارت نہ کرتا۔ابن علیہبغداد کے قاضی ہونےبنائے کےگئے۔<ref بعد جب ابن مبارک بغداد آئے اورانہیں اس کا علم ہوا تونہایت آزردہ خاطر ہوئے اورجو تحفے وہ ابن علیہ کے پاس معمولا بھیجا کرتے تھے انہیں موقوف کردیا اورجب ابن علیہ ابن مبارک کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے کوئی التفات نہیں کیا، ابن علیہ تھوڑی دیر بیٹھ کر گھر واپس چلے گئے اوردوسرے دن اس مضمون کا ایک خط لکھا:name="حوالہ2"/>
میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپ کے لطف وکرم کا منتظر تھا،لیکن آپ نے مجھ سے کلام ہی نہیں کیا،معلوم نہیں جناب کو میری کون سی حرکت ایسی ناگوار ہوئی؟
یہ خط پڑھ کر حضرت ابن مبارک نے فرمایا کہ یہ شخص بغیر سختی کے نہیں مان سکتا اورپھر جواب میں یہ تند وتیز اشعار لکھ کر بھیج دئے۔
یا جاعل الدین لہ باذیا یصطاد اموال المساکین
اے دین کے ذریعہ غیروں کے اموال کا شکار کرنے والا باز۔احتلت للدنیا ولذاتھا بجیلۃ تذھب بالدین
تونے دنیا اوراس کی لذتوں کو حاصل کرنے کیلئے ایک ایسا حیلہ اختیار کرلیا ہے جو دین کو تباہ کرکے رہے گا۔
فصیرت مجنونابھا بعدما کنت دواء للمجانین
پہلے تم دنیا کے مجنونوں کا علاج کرتے تھے اب خود تم اس کے مجنون ہو گئے ہو۔
این دوایاتک فی سودھا لترک ابواب السلاطین
اب بادشاہوں کے دروازے سے بے پروا ہوکر تمہارا روایت حدیث کرنا کہاں گیا۔
ان قلت اکرھت فذاباطل ذل حمار العلم فی الطین
اگر تم یہ کہو کہ مجھے عہدۂ قضا کے قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تو یہ عذر سراسر باطل ہے اب تو یہ کہنا زیادہ موزوں ہے کہ حمار کیچڑ میں گر گیا۔
ابن علیہ کے پاس جب عبداللہ بن مبارک کا یہ خط پہنچا تو آپ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ آپ اسے پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے، پورا خط پڑھنے کے بعد آپ فوراً مجلس قضا سے اٹھے اورہارون الرشید کے پاس جاکر اپنا استعفا پیش کرتے ہوئے فرمایا خدا کے لئے آپ میرے بڑھاپے پر رحم فرمائیے، کیونکہ اب میں اس عہدہ پر باقی نہیں رہ سکتا۔
خلیفہ ہارون الرشید نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ اس مجنون (ابن مبارک)نے آپ کو بہکادیا ہے،ابن علیہ نے فرمایا بہکایا نہیں بلکہ انہوں نے تو فی الحقیقت ایک مصیبت سے مجھے نجات دلا دی ہے اورمیں تو دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اس سے رستگاری عطا فرمائے، ہارون الرشید نے آپ کا استعفا منظور کرکے آپ کی خدمت قضا سے سبکدوش کردیا، حضرت عبداللہ بن مبارک کو اس کی اطلاع ملی تو بہت خوش ہوئے اورحسب سابق رقم کی ایک تھیلی ابن علیہ کو بھیج دی۔
<ref>(تہذیب التہذیب:۱/۲۷۸،وتاریخ بغداد:۶/۲۳۵،۲۳۶)</ref>[[یحییٰ بن شرف نووی]] کی رائے ہے کہ پہلے یہ [[بصرہ]] کے صدقات و زکوٰۃ کے والی بنائے گئے، پھر [[ہارون الرشید]]، کے آخری دور میں بغداد کے قاضی بنائے گئے۔<ref name="حوالہ2"/>
 
== عبادت اور خوف خدا ==