"جموں وکشمیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
ریاست جموں کشمیر کا کل رقبہ 85806مربع میل ہے جب کہ پہلے 84771مربع میل لکھا گیا ہے۔ پاکستان نے ریاست کا جو رقبہ چائینہ کو گفٹ کیا تھا وہ 1335مربع میل ہے جسے ریاست کے کل رقبے سے نکال کر پیش کیا گیا ہے
جموں کشمیر
سطر 45:
3 جون 1947ء کو تقسیم ہند کو منصوبہ پیش کیا گیا جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ راج برطانیہ کے زیر قبضہ ہندوستانی ریاستوں کو مذہبی اکثریت کی بنیاد پر انڈیا اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کا حق حاصل ہو گا لیکن اگر کوئی ریاست خودمختار رہنا چاہے تو اسے مکمل آزادی کا حق حاصل ہو گا۔یہ فیصلہ ہندوستانی ریاستوں کے متعلق ہوا تھا جبکہ ریاست کشمیر کبھی بھی ہندوستان کے حصہ نہیں رہی۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈین اور پاکستانی سربراہان کو خطوط لکھے جس میں ان کو آگاہ کیا گیا کہ جموں کشمیر خودمختار ریاست رہے گی اور آپ سے مکمل سفارتی و تجارتی تعلقات بحال رہیں گےان خطوط کا جواب پاکستان نے تو دے دیا لیکن بھارت نے وقت مانگا جبکہ 14اگست 1947ء کو پاکستان بنا15اگست کو بھارت اور 16اگست کو پاکستان نے ریاست جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ معائدہ جاریہ کیا ۔لیکن 21 اور 22 اکتوبر 1947ء کی درمیانی شب کو پاکستان اس معائدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 10000مسلح قبائل جن کی پشت پنائی ریگولر آرمی کر رہی تھی نے جموں <ref>{{Cite web|url=https://people.unica.it/annamariabaldussi/files/2015/04/China-Pakistan-1963.pdf|title=China Pakistan 1963|date=2015/04}}</ref>کشمیر پر حملہ کر دیا جس کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کو مجبورا انڈیا سے مدد مانگنی پڑی۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر انڈیا نے شرط رکھی کہ مہاراجہ پہلے اپنی ریاست کا الحاق انڈیا سے کرے اس کے بعد انڈیا مدد کرے گا۔ اس صورت حال میں مہاراجہ نے اس شرط پر معاہدہ کیا کہ یہ عارضی الحاق ہے۔ ریاست جموں کشمیر کا مستقل فیصلہ ریاست کے عوام کریں گے ۔اس کے بعد دونوں ممالک نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ بعد ازاں اقوام متحدہ نے مداخلت کر کے جنگ بندی کروائی۔
 
اس وجہ سے جموں کشمیر ستر سال سے زائد عرصے سے دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون کی رو سے یہ پاکستان کا حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔علاقہ عالمی سطح پر متنازع قرار دیا گیا ہے۔اقوام متحدہ اور باقی بڑی اہم عالمی تنظیموں نے کشمیریوں جموں کشمیر کے حق آزادی کو تسلیم کیا ہے۔اور سلسلے اپنی ثالثی کی پیش کی ہے۔
 
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں وادی کشمیر میں مسلمان 95 فیصد، جموں میں 33.45 فیصد اور لداخ میں 46.41 فیصد ہیں۔ جموں میں ہندو 62.55 فیصد اور سکھ 3.28 فیصد ہیں اور لداخ میں بودھ 39.65 فیصد اور ہندو 12.11 فیصد ہیں۔اور پاکستان کے زیر انتظام میں 99.9 مسلمان ہیں۔کشمیرہیں۔ جموں کشمیر کا شرح خواندگی 98 فیصد سے زائد ہے۔
 
جموں کشمیر کے لوگ اپنی بہترین صلاحیتوں کے باعت جموں کشمیر،انڈیا،پاکستان اور بیرون ممالک میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔اور مختلف شعبہ زندگی میں اپنی صلاحتیوں کے جوہر دیکھا رہے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہ لوگ اپنے طور جموں کشمیر کی تحریک آزادی کو کامیاب کرنے میں ہر سطح پر حصہ ڈال رہے ہیں۔
 
تحریک آزادی کو کمزور کرنے کے لیے 5 اگست 2019ء کو بھارت نے [[آئین ہند کی دفعہ 370]] کو ختم کرنے اور ریاست کو دو [[یونین علاقہ|یونین علاقوں]] میں تقسیم کر دیا۔متنازع علاقے کو اپنا علاقہ لکھ دیا – لیکن اس کے بعد تحریک آزادی مذید شدید ہو گئی ہے۔عوام کے اس شدید رد عمل کے باعث بھارت نے پوری وادی میں سخت کرفیو نافذ کر دیا۔ ریاست بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل اور موبائل کنیکشن بند اور مقامی سیاسی لیڈروں کو گرفتار کیا گیا۔<ref>{{Cite web|url=https://timesofindia.indiatimes.com/india/article-370-to-be-scrapped-jk-will-ceases-to-be-a-state-2-union-territories-created/articleshow/70531899.cms|title=Jammu Kashmir Article 370: Govt revokes Article 370 from Jammu and Kashmir, bifurcates state into two Union Territories|last=|first=|last2=|date=2019-08-05|website=The Times of India|language=en|archive-url=|archive-date=|dead-url=|access-date=2019-08-05|last3=|first3=}}</ref> گھر گھر تلاشی کے دوران ہزاروں بے گناہ نوجوانوں اور نوعمر لڑکوں کو گرفتار کرکے غائب کر دیا ہے۔