"راکھال داس بینرجی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏حالات زندگی: اضافہ حوالہ جات
درستی
سطر 15:
 
== حالات زندگی==
راکھل داس بینرجی کی پیدائش 12 اپریل 1885ء میں بہرام پور، ضلع مرشد آباد، بنگال پریذیڈنسی میں ہوا۔<ref name=e/><ref name=g>{{cite web|url=https://www.lindahall.org/r-d-banerji/|title=Scientist of the Day - R. D. Banerji|date=12 April 2017|access-date=201 OctNov 20202021}}</ref> وہ ایک بنگالی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام متی کال اور والدہ کا نام کالی متی تھا۔ ابتدائی تعلیم کرشناتھ اسکول بہرام پور میں حاصل کی انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی تعلیم 1903ء میں پریذیڈنسی کالج کلکتہ سے حاصل کی، جبکہ بی اے (آنرز) 1907ء میں پاس کیا۔ پھر 1910ء میں [[کلکتہ یونیورسٹی]] سے تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔<ref>http://www.caluniv.ac.in/about/Teacher.html</ref><ref>مختیار احمد ملاح، مشرقی سندھ شناسی (سندھ)، محکمہ ثقافت و سیاحت حکومت سندھ، اگست 2017ء، 377</ref> راکھل داس بینرجی ایک تاریخ دان، محقق، ناول نگار اور افسانہ نگار تھے۔ وہ اس کے علاوہ آثار قدیمہ کے ماہر، کتبات اور قدیم تحریریں پڑھنے کے ماہر تھے۔ 1910ء ہندوستان کے آثار قدیمہ کے محکمہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا میں ملازمت اختیار کی اور کلکتہ میوزیم اسسٹنٹ کیوریٹر مقرر ہوئے۔ 1917ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا میں اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹ کے عہدے پر مقرر ہو گئے۔ قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر کلکتہ یونیورسٹی میں پروفیسر مقرر ہو گئے۔ اس کے بعد [[بنارس ہندو یونیورسٹی]] چلے گئے جہاں وہ اپنی وفات تک یعنی 23مئی 1930ء تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ راکھل داس بینرجی بنیادی طور پر ادیب تھے۔ انہوں لاتعداد افسانے اور ناول بنگالی زبان میں تحریر کیے۔ ان میں شمگھانکا، دھرما بھالا، کرونا، می یوک، آصم، لطف اللہ، درویا، باسنر، کتھا، انوک راما، ہما کانا قابل ذکر ہیں۔ راکھل داس نے کلکتہ یونیورسٹی کے نصاب کے لیے بھی کتابیں لکھیں جن میں History of India، Junior History of India، History of Orisa اور Bengal in Bangla شامل ہیں۔<ref>مشرقی سندھ شناسی (سندھ)، 388</ref> وہ ایک بہترین ماہر لسانیات تھے۔ قدیم تحریروں اور کتبات کو پڑھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ بنگالی زبان کی بنیاد اور رسم الخط پر The Origin of Bangali Scrip نامی کتاب لکھی، جس میں [[بنگالی زبان]] کی بنیاد اور ارتقا پر دلائل سے بحث کی گئی ہے۔انہوں Bengal in Bangla میں بنگال کی تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے [[قرون وسطی|قرون وسطیٰ]] کے ہندوستانی سکوں پر بھی شاندار تحقیق کی ہے۔ انہوں نے [[گپتا سلطنت]] کی مجسمہ سازی اور فنِ تعمیر پر بھی ایک بہترین کتاب Eastern Indian Medieval of Sculpture تحریر کی جو کہ 1933ء میں ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ ان لیکچروں کو ترتیب دے کر The Gupta Age of Imperial کے نام سے 1933ء میں شائع کیا گیا۔ راکھل داس بینرجی کا اصل کارنامہ موہن جو دڑو اور ہڑپا کے آثار قدیمہ پر تحقیق ہے۔ کام راکھل داس اور [[این جی مجمدار]] جیسے ماہر کرتے تھے لیکن رپورٹس اس وقت کے آرکیالوجیکل سروے آن انڈیا کے ڈائرکٹر جنرل [[سر جان مارشل]] اور دیگر انگریز افسران کے نام سے شائع ہوتی تھیں۔ اصل میں راکھل داس بینرجی ہی وہ شخص ہیں جنہوں موہن جو دڑو کے آثار قدیمہ کو دریافت کیا، اس کی کھدائی میں حصہ لیا اور رپورٹیں تیار کیں۔ 1921ء اور 1922ء کے درمیان آر ڈی بینرجی نے موہن جو دڑو کی کھدائی سے مہریں اور دیگر اشیاء دریافت کیں۔ 1924ء میں سر جان مرشل نے ان مہروں پر توجہ دی اور انہیں السٹریٹڈ لندن نیوز میں تصاویر کے ساتھ شائع کرایا۔<ref>مشرقی سندھ شناسی (سندھ)، 389</ref>
 
== کتابیات ==